دیکھیں امت شاہ کی ٹیم کیا کلیور دکھاتی ہے؟

اپنی تاجپوشی پر پارٹی کی قومی کونسل کی مہر لگنے کے ہفتے بھر بعدبھاجپا کے نئے پردھان امت شاہ نے اپنی ٹیم کا اعلان کر جہاں پہلے کئی عہدیداران کو ان کی جگہ بنائے رکھا وہیں کئی نئے چہرے بھی شامل کئے ہیں۔ امت شاہ کی ٹیم کو دیکھ کر کچھ باتیں بیحد صاف دکھائی پڑتی ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ ان کی ٹیم میں توقع سے کم عمر کے لیڈروں کو بڑی تعداد میں موقعہ دیا گیا ہے تاکہ تنظیم کے تیور اور دھار دونوں موقعے کے مطابق آگے بڑھیں۔ نئی ٹیم میں ہر نقطہ نظر سے توازن قائم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ عمر ،جغرافیہ اور اقتدار تینوں سطحوں پر درمیانے راستے کو اپنایا گیا ہے۔ تنظیم میں ایسے کئی چہروں کو جگہ دی گئی ہے جو عمر کے حساب سے نہ تو بہت نوجوان ہیں اور نہ ہی بوڑھے۔ اس کے پیچھے منشا بہت صاف ہے۔ تنظیم کا کام دیکھنے والے عہدیداران سماج کی نئی اور پرانی پیڑھی کے درمیان توازن اور تال میل قائم کرسکیں۔ بزرگوں کا بڑکپن اور نوجوانوں کا جوش اگر ملا دیا جائے تو ایک اچھا تال میل تیار ہوتا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی خود میں ایسے ہی تجزیئے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ یہ بات صاف نظر آتی ہے کہ امت شاہ کی ٹیم پر آر ایس ایس کی چھاپ بیحد گہری ہے۔ تنظیم کے سکریٹری جنرل کے عہدے پر جس طرح رام لال برقرار رہے مرلی دھر راؤ بھی اپنی جگہ رہے اور حال ہی میں آر ایس ایس سے بھاجپا میں آئے رام مادھو اور شیو پرساد جیسے افراد کو ذمہ داریاں ملی ہیں اس سے صاف ہے کہ بھاجپا لیڈر شپ اور آر ایس ایس کے درمیان سیاسی اور حکمت عملی سطح پر اچھا تال میل قائم کیا ہے۔ زیادہ چونکانے والا فیصلہ اگر کوئی کہا جاسکتا ہے تو وہ یہ ہے کہ ورون گاندھی کو امت شاہ کی ٹیم میں شامل نہیں کیا گیا شاید اس لئے نہیں دیا گیا ہو تاکہ انہیں کوئی اچھا اہم عہدہ دینے کا پلان ہو۔ خیال رہے ان کی ماں مینکا گاندھی نے، جو مرکز میں وزیر ہیں یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ ورون کو اترپردیش کا امکانی وزیر اعلی کے طور پر پرویکٹ کردیا جائے۔ حالانکہ شاہ کی ٹیم کے اعلان کے ساتھ ہی پارٹی میں کچھ مخالف آوازیں بھی اٹھنے لگی ہیں اس کی شروعات مسلسل چوتھی بار درجہ فہرست ذاتوں سے متعلق مورچے کے بنائے گئے چیئرمین پھگن سنگھ کلستے نے کی ہے۔ پانچ سے زیادہ بار ایم پی رہے کلستے نے نئی ذمہ داری سنبھالنے سے فی الحال انکار کردیا ہے۔ ان کا کہنا ہے پارٹی یا تو انہیں عہدہ نہیں دے یا پھر وہ بطور ایم پی ہی ٹھیک ہیں۔ اس دوران وہ یہ بھی یاد دلانے سے نہیں چوکے کہ نریندر مودی کے ساتھ سکریٹری جنرل کے عہدے کی ذمہ داری سنبھال چکے ہیں۔ بی ایس یدی یروپا کو وائس پریزیڈنٹ بنانے پر بھاجپا کی نکتہ چینی ہورہی ہے۔ کرپشن سے لڑنے کا اشو لیکر آئی پارٹی کچھ داغدار شخص کو نائب پردھان بنارہی ہے یہ قدم اپوزیشن کے لئے ایک احتجاج کرنے کا اشو مل گیا ہے۔بدقسمتی یہ ہے کہ یدی یروپا نے بھی یہ کہہ کر درپردہ طور پر ناراضگی جتا دی ہے کہ ان کے حلقے سے لوگ انہیں منتری کی شکل میں دیکھنا چاہتے تھے۔ کئی دیگر لیڈر بھی ناراض ہیں لیکن فی الحال خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔دہلی سے کسی شخص کو نئی ٹیم میں شامل نہیں کیا گیا جس وجہ سے دہلی بھاجپا میں تھوڑی ناراضگی ہے۔ امت شاہ نے اپنی ٹیم کی تشکیل سے صاف کردیا ہے کہ تنظیم کے فروغ کے ساتھ چناؤ انتظام بھی ان کی ترجیح ہے۔ شاہ کی نئی ٹیم میں جگہ پانے والے ہر لیڈر نے لوک سبھا چناؤ میں ایک اہم رول نبھایا تھا۔ لوک سبھا میں ٹکٹ کٹنے والے لیڈروں کو بھی تنظیم میں جگہ دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ ٹیم شاہ کا پہلا سب سے بڑا امتحان مہاراشٹر، ہریانہ، جھارکھنڈ، جموں و کشمیر کے اسمبلی چناؤ میں ہوگا۔ دہلی میں کب چناؤ ہوں گے فی الحال صاف نہیں ہے۔ بہار میں راشٹریہ جنتادل (یو) اور کانگریس کے تال میل سے نمٹنا آسان نہیں ہوگا۔ بھاجپا کا نشانہ آنے والے اسمبلی چناؤ میں جیت درج کرنے کے ساتھ ساتھ راجیہ سبھا میں اپنی طاقت بڑھانا ہے جہاں وہ اقلیت میں ہے۔ امت شاہ جانتے ہیں کہ اب لوک سبھا چناؤ جیسے ماحول کی امید نہیں کرسکتے۔ اتراکھنڈ کی تین اسمبلی سیٹوں کے ضمنی چناؤ نے یہ صاف کردیا ہے اس لئے دوسری پارٹیوں میں سیند لگانے میں لگ گئے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ امت شاہ کی ٹیم پارٹی کو کیسا کلیور دکھاتی ہے۔
(انل نریندر) 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟