کہیں سیلاب تو کہیں سوکھے کا سنکٹ: کسان کی تباہی!

دیش کے کئی حصوں میں خوشک سالی اور سیلاب کی صورتحال بنی ہوئی ہے۔ کسانوں کو دونوں ہی مشکلوں سے دوچار ہونا پڑ رہا ہے۔ بہار، اترپردیش کے زیادہ تر حصوں میں خوشک سالی کا اندیشہ تھا لیکن اب ان ریاستوں میں سیلاب کا خطرہ منڈرانے لگا ہے۔ بہار میں ایک طرف 25 ضلع سوکھے کی زد میں ہیں تو دوسری طرف کچھ شہروں میں ندیوں میں آبی سطح بڑھ گئی ہے۔ اس سے ہزاروں ایکڑ میں کھڑی فصلوں کو نقصان پہنچا ہے۔ ظاہر ہے کہ خوشک سالی ہو یا سیلاب ہو دونوں ہی صورتوں میں خمیازہ کسانوں کو اٹھانا پڑ رہا ہے۔ ابھی 10 دن پہلے تک یوپی میں سوکھے کا اندیشہ ظاہر کیا جارہا تھا لیکن اس دوران اتنی بارش ہوئی کہ اب سیلاب کا خطرہ کھڑا ہوگیا ہے۔ سنچائی محکمے کے مطابق شاردا ندی، پلیاکلاں، لکھیم پوری کھیری، شاردا نگر میں خطرے کے نشان سے اوپر بہہ رہی ہے۔ بارہ بنکی کے ایلیگن پل اور ایودھیا میں گھاگرا ندی خطرے کے نشان کے اوپر بہہ رہی ہے۔ گنگا ندی بلند شہر کے نرورا، رام گنگا، مراد آباد اور گھاگرا ،بلیا کے توتی پار میں خطرے کے نشان کے قریب بڑھ رہی ہے۔ اندازہ ہے گھاگرا ندی بارہ بنکی میں اور ایودھیا اور بلیا میں توتی پار خطرے کے نشان کو پار کر جائے گی۔ نیپال کے ذریعے پانی چھوڑے جانے پر لکھیم پور کھیری سرسوتی، بہرائچ اور گوندا، بستی، سیتا پور میں سیلاب کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔ اترا کھنڈ میں بھاری بارش کے سبب مغربی اترپردیش کے بجنور، مراد آباد، بلند شہر میں سیلاب کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔ کمزور مانسون کے سبب بہار میں سوکھے کی صورتحال نازک بنی ہوئی ہے۔ 25 ضلعوں میں بارش عام مقدار سے 19 فیصدی کم ہوئی ہے۔ اس موسم میں پہلی بار ریاست میں بارش کی عام پوزیشن اتنی نیچے ہے۔ اس کی وجہ کمزور مانسون نے کسانوں کے لئے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ بہار میں بارش اب تک 417.4 ملی میٹر ہونی چاہئے تھی جبکہ کچھ دن پہلے تک یہ اعدادو شمار محض 339.1 ملی میٹر تک ہی سمٹ گئی ہے۔ یعنی درکار بارش سے 19 فیصدی کم برسات سے بہار دوچار ہے۔ بہار کے25 ضلعوں میں جہاں سوکھے کی حالت ہے وہیں سریو ندی میں آبی سطح بڑھنے کے سبب کئی دیہات میں سیلاب کا خطرہ منڈرا رہا ہے جبکہ نیپال میں ہوئی بھاری بارش اور بہرائچ سے پانی چھوڑنے کی وجہ سے گوپال گنج کے 10 گاؤں سیلاب کی زد میں آگئے ہیں۔ اس سے ہزاروں ایکڑ میں کھڑی گننے اور مکا کی فصلیں برباد ہونے کا اندیشہ ہے۔ پٹنہ کے پالی گنج میں بارش نہ ہونے سے دھان کی فصل سوکھنے کے دہانے پر پہنچ گئی ہے۔ خوشک سالی ہو یا سیلاب دونوں ہی صورتوں میں نقصان کسان کا ہی ہوتا ہے۔ جہاں پیداوار کم ہونے سے قیمتیں بڑھتی ہیں وہیں کسان کی مالی حالت بھی پتلی ہوتی ہے۔ اتنے سال گزرنے کے بعد بھی سیلاب اور خوشک سالی پر قابو نہیں پایا جاسکا۔ ایک ہی ریاست میں کہیں سوکھا ہے تو کہیں سیلاب ہے۔ اگر جہاں سیلاب ہے اس کے پانی کو خوشک علاقے میں پہنچانے کا انتظام ہوتا ،ریل و سینچائی کا یا اکھٹا کرنے کا انتظام ہوتا تو ایسی نازک حالت سے بچا جاسکتا تھا۔ مرکز اور ریاستی سرکاروں کو اس طرف توجہ دینی ہوگی۔ دور رس پالیسی تیار کرنی چاہئے تاکہ دونوں ہی حالات سے بچا جاسکے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟