بجلی کمپنیاں اور بجلی ریگولیٹری اتھارٹی گرا رہی ہے دہلی والوں پر بجلی!

دیش کی راجدھانی دہلی میں ہر ایک برس گرمی میں درجہ حرارت بڑھنے کے ساتھ بجلی کی قلت شروع ہوجاتی ہے۔ اس برس مسئلہ کچھ اور زیادہ سنگین ہے۔ پچھلے تقریباً15 روز سے دہلی کے زیادہ تر حصوں میں روزانہ گھنٹوں کے حساب سے بجلی کی کٹوتی ہورہی ہے۔ دراصل دہلی کے شہریوں کوبلا رکاوٹ سستی اور کوالٹی بجلی کی سپلائی ے میں اہم تعطل دوسری ریاستوں پر انحصار، ٹرانسمیشن لائنوں اور انٹرنل نیٹورک کی حالت نہ بہتر ہونے ،دہلی بجلی ریگولیٹری کمیشن(ڈی ای آرسی) کا طریقہ کار تسلی بخش نہ ہونا اور پرائیویٹ بجلی تقسیم کرنے والی کمپنیوں کی منمانی ہے۔ پہلے سے ہی دیگر ریاستوں کے مقابلے دہلی میں بجلی کی قیمتیں زیادہ ہیں۔ یہ بجلی کمپنیاں جھوٹے پاور اکاؤنٹ اور بیلنس شیٹ دکھا کر ڈی ای آر سی کو بے وقوف بناتی رہتی ہیں اور وہ قیمتیں بڑھاتی رہتی ہے۔ اب پھر بجلی کی قیمت بڑھانے کی تیاری ہورہی ہے۔ ڈی ای آر سی کی جنرل سکریٹری محترمہ جے شری رگھورمن نے کہا کہ دہلی میں بجلی کی قیمتیں بڑھنا طے ہے۔ محترمہ رگھو رمن نے جمعہ کے روز عوامی سماعت کے بعد اخبار نویسوں سے بات چیت میں یہ خیالات ظاہر کئے۔ ادھر پبلک سماعت کے دوران آر ڈبلیو اے کے عہدیداران نے کہا کہ ڈی ای آر سی بجلی تقسیم کمپنیوں کے مفاد کی تکمیل میں لگا ہوا ہے جس کی وجہ سے بجلی صارفین کو مہنگی بجلی لینے پر مجبور ہونا پڑ رہا ہے۔17 تاریخ سے بجلی صارفین کی کوئی چنتا نہیں کی جارہی ہے۔ راجدھانی میں بجلی سپلائی کررہی پرائیویٹ کمپنیوں کو صرف اپنی کمائی کی پرواہ ہے۔ عوام کی پریشانیوں سے ان کا کوئی سروکار نہیں ہے۔ تمام دباؤ اور نکتہ چینیوں اور احکامات کے بعد بھی یہ کمپنیاں عام جنتا کو پریشان کرنے اور اپنی کمائی بڑھانے میں کوئی نہ کوئی راستہ تلاش لیتی ہیں۔ ایک تو دہلی کی تینوں بجلی تقسیم کمپنیاں دہلی کے شہریوں کو 24 گھنٹے بجلی نہیں دے پا رہی ہیں اوپر سے ہیلپ لائن نمبروں پر بجلی کٹوتی کی شکایت درج کرانے کے لئے پیسہ وصول رہی ہیں اس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ اگر کوئی شکایت درج کرانا چاہے تو پیسے کٹنے کے ڈر سے وہ بار بار فون نہیں کرسکتا اور یہ کمپنیاں آرام سے اپنی منمانی کرسکتی ہیں۔ بجلی تقسیم کمپنیوں کا یہ رویہ غیر ذمہ دارانہ بھی ہے اور ان کی رائے پر سوال بھی کھڑا کرتا ہے۔ ڈی ای آر سی کے سامنے بجلی کمپنیاں اپنی بیلنس شیٹ اور دیگر بجلی کے کھاتوں میں علیحدہ علیحدہ تفصیلات دکھاتی ہیں۔ کیا یہ ڈی ای آر سی کو دکھائی نہیں دیتا؟ بجلی کمپنیاں بجلی خرید میں جم کر دھاندلے بازی کررہی ہیں وہ خسارہ دکھاتے ہوئے قیمتیں بڑھانے کے لئے بجلی کی کٹوتی کرتی ہیں۔ راجدھانی میں تقریباً 30 لاکھ بجلی صارفین کے یہاں بجلی کے میٹر لگے ہوئے ہیں۔ ان سے ڈسکام کمپنیاں ٹرانسفارمر سے میٹر تک پہنچانے اور مرمت کے نام پر ہر ماہ 100 روپے وصولتی ہیں یعنی ایک بجلی صارفین سے ہر برس 1200 روپے کی وصولی کی جاتی ہے اس کے علاوہ نام بدلنے سے لوڈ کٹوانے یا میٹر کو اس دیوار سے دوسری دیوار پر لگانے کے نام پر پیسہ وصولتی ہیں اس کے بعد بھی آخر کیوں خسارہ ہورہا ہے؟ بجلی کمپنیاں اپنی بیلنس شیٹ میں صحیح اعدادو شمار نہیں دکھاتیں اور ان کی سختی سے جانچ ہونی چاہئے۔ بجلی کمپنیاں جنتا سے ایک ایک یونٹ کا دام وصولتی ہیں۔ دہلی کے شہریوں کے یہاں آرہے بھاری بھرکم بل اس کی مثال ہیں اس کے باوجود اس کا ان پربوجھ بڑھ رہا ہے تو وہ کسی نہ کسی بہانے پیسہ وصول رہی ہیں، یہ بتاتا ہے کہ ان کمپنیوں کا خاص مقصد پیسہ کمانا ہے اور وہ عوام کے تئیں حساس نہیں ہیں۔ سب سے خاص بات یہ ہے کہ یہ کمپنیاں بھاری بھرکم بل وصولنے کے بعد بھی ہمیشہ ہی خسارے کی بات کہہ کر روتی رہتی ہیں۔ سابق وزیر اعلی شیلا دیکشت کی قیادت والی کانگریس سرکار تو ان بجلی کمپنیوں کے تئیں ہمدرد تھی لیکن کیا نریندر مودی سرکار بھی اسی طرح کا عوام سے رویہ اپنائے گی؟ مرکزی وزیر بجلی نے بجلی پروڈکشن کمپنیوں کے نمائندوں سے ملاقات کی ہے۔ میٹنگ میں ریلائنس ، اڈانی،ویل اسپن، جندل پاور وغیرہ سمیت کئی بڑی کمپنیوں کے مالکان یا سربراہ شامل ہوئے تھے۔ بجلی منتری پیوش گوئل نے ان کمپنیوں کو آر ہی دقتوں کے بارے میں توتبادلہ خیالات کئے لیکن بجلی کے داموں کے بارے میں ان کمپنیوں کے گورکھ دھندے پر کوئی روشنی نہیں ڈالی۔کیا یہ سرکار بھی کانگریس سرکار کی طرح بجلی کمپنیوں کے تئیں ہمدردی رکھتی ہے؟ راجدھانی میں بجلی کو لیکر و بجلی کے بھاری بھرکم بلوں سے پریشان لوگوں میں ہائے توبہ مچی ہوئی ہے اور حکومت کو اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ اگر مودی سرکار ایسے ہی چلے گی اور دہلی کے شہریوں کے دکھ کو نظرانداز کرتی رہے گی تو عوام کا اس سرکار سے بھی تیزی سے اعتماد اٹھتا رہے گا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟