یوپی اے سوئم کا بلو پرنٹ تیار ہوگیا ہے
ایک طرف جہاں اپوزیشن پارٹیوں کے درمیان وزیر اعظم کی امیدواری کے لئے افراتفری مچی ہوئی ہے وہیں دوسری طرف کانگریس مسلسل تیسری بار اقتدار میں آنے کے لئے خاموشی کے ساتھ اپنی چناوی تیاریوں کو آخری شکل دے رہی ہے۔ اس کے لئے پارٹی میں یوپی اے ۔III کے لئے ایک بلوپرنٹ بھی تیار کرلیا ہے۔ جھارکھنڈ میں پارٹی سرکار بنانے جارہی ہے۔ دراصل جھارکھنڈ میں کانگریس صرف سرکار ہی نہیں بنا رہی ہے بلکہ یہ آئندہ لوک سبھا چناؤ کی زمین تیار کررہی ہے۔ ایک تو ہیمنت سورین کو وزیر اعلی بنانے کے بدلے کانگریس نے جھارکھنڈ کی کل14 لوک سبھا سیٹوں میں سے10 اپنے لئے ریزرو کرالی ہیں، جس میں وہ دوسیٹیں لالو پرساد یادو کی آر جے ڈی کے لئے چھوڑے گی۔ ان تینوں پارٹیوں نے 2004ء میں مل کر چناؤ لڑا تھا اور19 میں سے13 سیٹیں جیتی تھیں۔ بہار میں کانگریس دو کشتیوں میں سواری کررہی ہے۔ اگر چارہ گھوٹالے میں عدالت لالو یادو کو جیل بھیج دیتی تو پھر نتیش کمار کی جنتا دل (یو) کے ساتھ چناوی تال میل کرسکتی تھی۔ یہ بات نہیں بنی تو لالو پاسوان تو ہیں ہی۔ تاملناڈو میں ڈی ایم کے اور ترنمول کے ساتھ پھر پینگے بنانے کی ہر ممکن کوشش جاری ہے۔ حال ہی میں کانگریس نے ڈی ایم کے چیف کروناندھی کی بیٹی کو راجیہ سبھا میں لانے کے لئے اپنے چار ممبران اسمبلی کی حمایت دے دی۔ اس کے بدلے میں ڈی ایم کے نے بھی نرمی کے اشارے دیتے ہوئے کانگریس کو فوڈ سکیورٹی آرڈیننس پر پارلیمنٹ میں حمایت دینے کا وعدہ کرلیا ہے۔ کانگریسی بلو پرنٹ کے مطابق یوپی اے III کے دو حصے ہوں گے۔ پہلا کانگریس کچھ پارٹیوں کے ساتھ چناؤ سے پہلے اتحاد کرے گی اور ان کے ساتھ مل کر چناؤ لڑے گی۔ ان پارٹیوں میں این سی پی، راشٹریہ لوک دل، لوک جن شکتی پارٹی، آر جے ڈی اگر نتیش سے بات بن گئی تو جے ڈی یو کے ساتھ چناؤ لڑے گی۔ جھارکھنڈ میں جھارکھنڈ مکتی مورچہ، نیشنل کانفرنس، کیرل میں یو ڈی ایف اور تاملناڈ و میں ڈی ایم کے کا چناؤ سے پہلے اتحاد ہوسکتا ہے۔ اس کے بعد جو پارٹیاں اس کے ساتھ آ سکتی ہیں ان میں لیفٹ پارٹی یا ٹی ایم سی میں سے ایک اور آر جے ڈی یا جے ڈی یو میں سے ایک ہوسکتی ہے۔ تیسرا مورچہ نہ بننے کی صورت میں لیفٹ پارٹیاں سپا بسپا جیسی پارٹیوں کی اسے باہری حمایت مل سکتی ہے جیسا کے ابھی مل رہی ہے۔ ایسے میں کانگریس کی اتحادی اور حمایتی پارٹیوں کی اچھی خاصی فوج تیار ہوسکتی ہے جو چناؤ میں اس کی خراب کارکردگی کے باوجود کانگریس کو پھر سے اقتدار تک لانے میں مدد کرسکتی ہے۔ کانگریس کی حکمت عملی کے دو بڑے اشو ہیں نریندر مودی اور فوڈ سکیورٹی کارڈ۔ نریندر مودی کو زیرو کرنے کے لئے کانگریس مسلم ووٹوں کو اپنے حق میں لانا چاہتی ہے۔ مودی کے ڈر سے کانگریس کو امید ہے کہ مسلمان ووٹ اپنے آپ اس کی جھولی میں آجائیں گے۔ جس جلد بازی میں فوڈ سکیورٹی آرڈیننس کانگریس لائی ہے اس سے زیادہ تیزی سے اسے بھنانے کے لئے سرکار اور تنظیمی سطح پر اب تک کی سب سے بڑی پبلسٹی مہم چھیڑنے کی تیاری ہے۔ ان تیاریوں سے لوک سبھا چناؤ اسی سال کے آخر میں کرانے کا آثار بڑھ گئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق وزارت اطلاعات و نشریات جلد ہی فوڈ سکیورٹی مہم پر ایک بڑی پبلسٹی مہم چھیڑے گی۔ اسی طرح پارٹی کے ترجمانوں کو وزیر خوراک کے۔ وی۔ تھامس اور اس قانون کی باریکیوں اور عام آدمی کو ملنے والے فائدے گنائے جائیں گے اس کے بعد پردیش اور ضلع بلاک سطح پر فوڈ سکیورٹی قانون کے بارے میں کانگریس لیڈروں کو بتایا جائے گا۔ اندازہ ہے کہ دیش کی تقریباً 67 فیصدی آبادی کو فوڈ سکیورٹی کا فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ دراصل کانگریس مان رہی ہے کہ بھاجپا نے جس طرح سے کٹر پسند ہندوتو کا کارڈ کھیلنے کے لئے مودی کو آگے کیا ہے اس سے دیش میں مسلم ووٹروں کو اپنی طرف راغب کیا جاسکتا ہے۔ کانگریس اور سرکار اس مورچے پر پہلے ہی سے سرگرم ہے لیکن مہنگائی، کرپشن جیسے اشوز پر ناکامی کی کاٹ اور سماج کے سب سے نچلے طبقے کو اپنے ساتھ جوڑنے کے لئے منریگا اور کسان قرض معافی جیسے کسی ٹرم کارڈ کی ضرورت بھی سرکار شدت سے محسوس کررہی ہے۔ اس لئے پارلیمنٹ سیشن سر پر ہونے کے باوجود حکومت آرڈیننس کے ذریعے فوڈ سکیورٹی قانون لائی ہے۔ مقصد صاف تھا کے اس کا سہرہ کسی اور کو نہ لے جانے دیا جائے۔ اپوزیشن اب اگر اس کی مخالفت کرتی ہے تو اسے کانگریس غریب تک پہنچائے گی۔ حالانکہ سرکار نے پارٹی کو صاف بتا دیا ہے کہ اسے لاگو کرنے میں ابھی وقت لگے گا اور اس کے لئے 6 مہینے در کار ہیں۔ فوڈ سکیورٹی کی جھلک غریب طبقے کو دکھا کر اسے اس بات کے لئے تیار کرسکتی ہے کے اگلی سرکار بھی یوپی اے کی بنی تب یہ ٹھیک سے لاگو ہوسکے گا۔ اس کے لئے نچلی سطح پر ورکروں کو غریبوں تک خاص طور سے یہ بات پہنچانی ہوگی کہ اگر یوپی اے سرکار نہیں بنتی تو ان کی فوڈ سکیورٹی گارنٹی کو خطرہ ہے۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں