اسکول میں معصوم بچوں کی موت کا ذمہ دار کون؟

بدھوار کو جب مرکزی وزیرصحت غلام نبی آزاد بچوں کی صحت کو لیکر سرکار کی نئی اسکیم کا آغاز کررہے تھے تو اسی وقت بہار کے چھپرا ضلع میں ہائے توبہ مچی ہوئی تھی۔ چھپرا کے ایک پرائمری اسکول میں زہریلا کھانا کھانے سے 22 بچوں کی موت ہوگئی جبکہ درجن سے زائد بچے ہسپتالوں میں زندگی کی جنگ لڑ رہے تھے۔ دل دہلانے والے اس واقعہ کے فوراً بعد ایسا ہی حادثہ ریاست کے مدھوبنی کے ایک دیگر اسکول میں بھی ہوا۔ یہاں اسی طرح دوپہر کا کھانا کھاتے ہی15 بچے بیہوش ہوگئے۔ مدھوبنی کے اس حادثے میں بچوں کے کھانے میں چھپکلی ملنے کی بات کہی گئی۔ چھپرا میں بھی بچوں کے کھانے میں کیڑے مار دوا ملنے کا اندیشہ ظاہر کیا گیا ہے۔ ان دونوں دل دہلانے والے واقعات میں چونکانے والی یکسانیت ہے۔ دونوں سرکاری اسکول ہیں۔ گاؤں ،قصبوں سے سب تعلق رکھتے ہیں اور پڑھنے والے بچے غریب خاندانوں سے ہیں۔ سارن کے گاؤں میں موت کا سناٹا ہے۔ اس گاؤں میں کل تک بچوں کی کلکاریاں گونجتی تھیں آج وہاں ماتم چھایا ہوا ہے۔ منگل کی دیر رات سے بچوں کی لاشیں اور انہیں دفنانے کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ بدھوار کی شام تک مڈ ڈے میل کے شکار ہوئے تمام بچوں کی لاشیں دفنائی جا چکی تھیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ جس اسکول میں وہ پڑھتے لکھتے ،کھیلتے کودتے تھے اسی اسکول کے سامنے کے میدان میں انہیں دفنایا گیا ہے۔ ایک بچے کی لاش کو تو تقریباً اسکول کے گیٹ کے باہر ہی دفنایاگیا۔ بدھوار کو دھرماستی گاؤں میں کسی کے گھر میں چولہا نہیں جلا۔ ہر گھر سے رونے بلکنے کی آوازیں آتی رہیں۔ اس واردات میں ایک اہم اسکیم کے تئیں بڑھتی جارہی مجرمانہ لاپروائی کو ہی اجاگر کیا ہے۔ وہ بچے اسکول میں پڑھنے گئے تھے لیکن ہمارے سڑے گلی نظام نے ان کے خوابوں کو پروان چڑھنے سے پہلے ہی تباہ کردیا۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ مڈ ڈے میل میں مری چھپکلی ہونے یا اس کے کسی طرح زہریلا ہونے کی شکایتیں آتی رہی ہیں اور پہلے بھی کئی جگہوں پرکچھ بچوں کی کھانا کھانے سے موت ہوئی ہے اس کے باوجود تعلیم کے بنیادی حق کو بنیاد دینے والی اس اسکیم کو لیکر چوطرفہ لاپروائی برتی جارہی ہے۔ یہ تو جانچ سے ہی پتہ چلے گا کے ان بدقسمت بچوں کو دئے گئے کھانے میں کیڑے مار دوا ملی ہوئی تھی یا کوئی زہریلی شے ملی تھی۔ مگر جس طرح سے اسکول میں مڈ ڈے میل تیار کیا جاتا ہے اور بچوں کو دیا جاتا ہے اس پورے نظام میں ہی گڑبڑی ہے۔ مقصد صحیح ہو یا غلط اسکول میں دوپہر کا کھانا دیش کی غریبی سے تعلق رکھتا ہے۔ سرکار کا خیال تھا اسکولوں میں کھانا دئے جانے سے لوگ اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے کے لئے تیارہوسکیں گے۔ یہ بھی سوچا گیا تھا کہ بچوں کو ایسا ہی کھانا دیا جائے جو ان کی جسمانی، ذہنی فروغ کے لئے بہترین ہو۔ اس کے اندر تمام طاقت کے اجزاء شامل ہوں لیکن جیسا اپنے دیش میں رواج ہے ایسی اسکیموں کو پیچھے غریبوں یا دیش کے مفاد کی فکر کم ہوتی ہے اور سیاسی نفع نقصان اور اسکیم کے پیسے کی لوٹ کھسوٹ سے جڑی ہوتی ہیں۔ بھروسہ نہ ہو تو پتہ لگا لیجئے ان مڈڈے میل اسکیموں میں کن کی ٹھیکیداری چل رہی ہے اور اسکولوں کے ہیڈ ماسٹروں کے تال کہاں کہاں جڑے ہوئے ہیں۔ ایسے میں غریب بچوں کی جان کی کسی کو کیا پڑی۔ جن والدین کا آنچ اجڑ گیا ہے وہ تو شاید رو دھوکر لاکھ دو لاکھ روپے کا معاوضہ لیکرچپ ہوجائیں گے۔ رہی بات دیش کے مستقبل کی تو اس کی فکر کرنے کا وقت کسی کے پاس نہیں ہے۔ معصوم بچوں کی موت پر بھی سیاسی بحث چھڑ گئی ہے۔ سیاستدانوں کو اپنی اپنی روٹیاں سینکنے کی پڑی ہے۔ ایک طرف جہاں عام آدمی متاثرہ خاندان کے دکھ درد سے پریشان ہے وہیں سیاسی پارٹیوں کے ذریعے ایک دوسرے پر الزام تراشیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ اس مڈ ڈے میل اسکیم پر ہی سوالیہ نشان کھڑا ہوگیا ہے۔ والدین کے اندر اس بات کو لیکر دہشت ہے کہیں کھچڑی کھانے سے میرا بچہ بیمار نہ پڑ جائے۔ یہ واقعہ صرف بہار کا ہی نہیں بلکہ پورے دیش کا واقعہ بن چکا ہے۔ بہار سرکار سے لیکر بھارت سرکار کے تئیں لوگوں میں ناراضگی پھیلی ہوئی ہے۔ گاؤں سے لیکر شہر تک سبھی لوگ اس بات سے فکر مند ہیں کہ آخر اتنے بڑے واقعہ کے بعد بھی انتظامیہ موثر قدم کیوں نہیں اٹھا پارہا ہے۔ متاثرہ خاندان کراہتارہا اور نیتا لوگ بیان بازی کرتے رہے۔ اگر انتظامیہ کے ذریعے فوری کارروائی کی گئی ہوتی تو شاید معصوم بچوں کو بچایا جاسکتا تھا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!