سشیل کمارشندے کو آتنکیوں کی سلامی


اسے اچھا اشارہ نہیں مانا جاسکتا کہ شری سشیل کمارشندے کے وزارت داخلہ سنبھالتے ہی پنے میں دھماکے ہوگئے۔ بطور وزیر بجلی بلیک آؤٹ ہوا تو بطور وزیر داخلہ دھماکے۔ خود شری شندے نے وزیر داخلہ کا عہدہ سنبھالا کہ انہیں اندرونی سلامتی کی ذمہ داری قابلیت کی بنیاد پر نہیں بلکہ ایک دلت ہونے کے سبب دی گئی ہے۔ ویسے بھی مرکزی وزیر بجلی اور مہاراشٹر کے وزیر اعلی کی شکل میں ان کی کارکردگی اوسطاً نیچے رہی ہے۔ پنے میں بدھوار کی شام سلسلہ وار چار دھماکے ہوئے ان کی طاقت کم تھی۔ان دھماکوں می دو افراد زخمی ہوئے۔ سبھی دھماکے ایک کلو میٹر کے دائرے میں ہوئے۔ شہر کے درمیان مصرف سڑک جنگلی مہاراج روڈ پر یہ دھماکے ایک کے بعد ایک شام 7:27 سے8:15 کے درمیان ہوئے۔ واردات پر پولیس کو بیٹری اور تار بھی ملے ہیں۔ پولیس نے بتایا کہ بال گندھرو تھیٹر کے پاس بموں کو لے جارہا ایک شخص دھماکے میں زخمی ہوگئے۔ دیا نند پاٹل نام کے اس شخص سے پوچھ تاچھ کی جارہی ہے۔ دھماکوں کی ابھی تک کسی نے ذمہ داری نہیں لی ہے۔ آخر اس دھماکے کے پیچھے کون ہیں اور ان کا مقصد کیا تھا؟ پیٹنٹ اور طریقہ ایک تنظیم کی طرف اشارہ کرتا ہے جسے ایسے دھماکے کرنے میں مہارت حاصل ہے تو وہیں دھماکے ہی قوت اور دوسری تنظیم کی طرف اشارہ کررہی ہے۔ ان دھماکوں کو لیکر جو سوال ابھرکر سامنے آیا ہے وہ یہ کہ دھماکے ناکام ہیں یا پھر ریہرسل؟29 جولائی 2008 کو گجرات کے شہر سورت میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا۔ پہلا سوال ہے کہ کیا یہ سازش تھی یا پھر سازش سے پہلے کی ریہرسل۔اس سوال کا جواب تھوڑا پیچیدہ ہے۔ اگر وقت پختہ ہو تو آتنکی کسی کی جان لینے سے کیوں چوکیں گے؟ مقصد تو وہی تھا لیکن پورا کیوں نہیں ہوا یا آتنکی ایسا چاہتے نہیں تھے؟ سورت میں 29 جولائی سے30 جولائی تک سلسلہ وار 21 غیر مستعمل بم برآمد ہوئے تھے لیکن ایک بھی پھٹا ہوا نہیں تھا آخر کیوں؟ 25 مئی 2011ء کو ہائی کورٹ کے گیٹ نمبر7 پر وکیلوں کی کار پارکنگ میں دھماکہ ہوا تھا اس میں جان مال کا کوئی نقصان نہیں ہوا لیکن اس کے بعد دہلی ہائی کورٹ میں ہی ایک بڑا دھماکہ5 ستمبر 2011 کو گیٹ نمبر پانچ کے پاس ہوا جہاں عام لوگوں کی آمدروفت رہتی ہے اور نتیجہ 14 لوگوں کی موت اور درجنوں زخمیوں کی شکل میں سامنے آیا۔ اور پھر دھماکہ پنے میں ہوا اور دھماکہ بھی کچھ ایسا ہی اشارہ کررہا ہے کے کیا آتنکی کسی بڑی واردات کی ریہرسل کررہے تھے یا پھر انہیں زیادہ قوت والا دھماکوں سامان نہیں مل پایا۔ یہ کم طاقت والا ہی دھماکہ کرنا پڑا؟ سورت اور پنے میں بم رکھنے کا بھی طریقہ ایک جیسا ہی تھا۔ ٹفن باکس سائیکل یعنی ویسی چیزیں جس کو ایک بار کوئی بھی نظرانداز کردے۔ پہلے ہوئے دھماکوں پر غور کریں تو ایسے طریقے انڈین مجاہدین اپناتی ہے۔ دو بدنام آتنکی تنظیم جو دھماکوں کے لئے چھوٹی اور شک کے دائرے میں نہ آنے والی چیزوں کا استعمال کرتی ہے ایسے میں دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا ان دھماکوں سامان کو کہیں اور لے جارہے تھے؟اس کہانی کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے بموں کو ارادہ کہیں اور رکھنے کا تھا لیکن جلد بازی اور ہڑ بڑی میں یہ طے وقت اور طے جگہ سے پہلے ہی پھٹ گئے؟ جب سورت میں 21 جگہوں پر بم رکھے گئے اور ایک بھی پھٹا نہیں یعنی سورت، دہلی اور پنے کی تصویروں کو ملا کر معاوزنہ کریں تو دو باتیں سامنے آتی ہیں پہلا امکان جلد بازی ہوسکتا ہے دوسرا دہلی ہائی کورٹ دھماکوں کی طرح پنے میں دہشت کی ریہرسل کرنا اور اگر اس امکان میں دم ہے تو خطرہ ٹلا نہیں ہے۔ سازش میں کئی ایسے اور بم ہوسکتے ہیں جو تیار ہورہے ہوں اور بے گناہوں کا خون بہا دیں۔ نئے وزیر داخلہ کو آتنکیوں کی سلامی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟