آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟



Published On 10 March 2012
انل نریندر
فوج کی دوٹکڑیوں کے ذریعے 16-17 جنوری میں دہلی کی طرف بڑھنے کو لیکر خبریں پہلے سے ہی پک رہی تھیں اور اس کی بھنک فوجی سربراہ جنرل وی کے سنگھ کو بھی تھی۔ یہ مارچ میں ہی ایک انگریزی رسالے کو دئے ان کے انٹرویو سے پتہ چلتا ہے۔ انہوں نے کہا تھا مان لیجئے ہماری ایک کور یا ڈویژن یا برگیڈ پریکٹس کررہی ہے تو کوئی کہے گا کہ اوہ۔۔۔ انہوں نے پریکٹس کی۔ یہ پریکٹس نہیں تھی وہ کچھ اور کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے کہا اب آپ اس میں ایک خبر بنائیں گے ان دنوں کئی لوگ غلط مطلب سے خبریں بنانا چاہتے ہیں۔ ادھر انگریزی اخبار دی گارڈین نے دعوی کیا ہے کہ فوج کے دہلی کوچ کی خبر کے پیچھے ایک مرکزی وزیر کا ہاتھ ہے۔ وزیر کا نام نہیں بتایا لیکن یہ کہا گیا ہے کہ وزیر کے قریبی رشتے دار کا تعلق دفاع خرید سے جڑی لابی کا ہے اوریہ لابی دونوں وزیر دفاع اے کے انٹونی اور فوجی سربراہ جنرل سنگھ سے پریشان تھی۔ آرمز لابی انٹونی کے اس لئے خلاف تھی کیونکہ انٹونی ایک ایماندار وزیر ہیں جو خرید میں کوئی گڑ بڑی نہیں ہونے دینا چاہتے۔ انٹونی کی بھرشٹاچار کے خلاف مہم سے ہتھیار سپلائر،ان کے ایجنٹ ، غیرملکی کمپنیاں اور فوج کا ایک طبقہ خلاف ہے اور یہ چاہتے ہیں کہ انہیں وزارت دفاع سے ہٹایا جائے۔ پچھلے ماہ ہی انٹونی نے چھ اسلحہ کمپنیوں کو بین کیاتھا۔ان میں چار غیر ملکی کمپنیاں (اسرائیلی ملٹری انڈسٹری، سنگاپور ٹکنالوجی کارپوریش ڈیفنس(روس) اور ایک سوئٹزرلینڈ کی کمپنی شامل ہے۔ جنرل وی کے سنگھ کے خلاف یہ سازش (اگر سازش تھی) اس لئے رچی گئی کیونکہ وہ دفاعی سودوں میں کمیشنوں کا دھندہ نہیں چلنے دے رہے تھے۔ کوچ کی خبر کو لاک کرنے کے پیچھے جنرل کے خلاف سیاسی پارٹیوں کو اکٹھا کرنا تھا۔فوجی سربراہ کاوقار بگاڑنے اور فوجی ٹریننگ سے جڑی سرگرمیاں ٹھپ کرنا بھی ایک مقصد ہوسکتا ہے۔ بھرشٹاچار کے الزاموں سے فوجی خرید کی رفتار کم ہوئی ہے۔ اگر بغاوت کے ڈر سے سینا کی ٹریننگ ایکسرسائز کی آزادی چھینی تو فوج کی صلاحیت متاثر ہوگی۔
ہندوستانی برّ ی فوج کی صلاحیت کا سوال جنرل وی کے سنگھ نے پردھان منتری کو لکھے اپنے خط میں اٹھایا تھا۔ اب ایک نیوز چینل میں اپنی رپورٹ میں فوج کے پاس گولہ بارود کی کمی کی بھیانک تصویر پیش کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق جنگ ہونے کی حالت میں فوج کے پاس صرف 10دنوں تک لڑنے کے لئے گولہ بارود موجود ہے۔ پہلی بار نہیں جب اس طرح کی خبریں آئی ہیں فوج کافی پہلے سے سیاسی رہنماؤں کو آگاہ کرتی آرہی ہے کہ اس کے پاس جنگ کے لئے گولہ باری جیسی ضروری اشیاء ،ضروری سطح سے کافی نیچے پہنچ گئی ہے۔کسی خطرے کا سامنا کرنے کی حالت میں فوج کی تیاریوں کو لیکر کیگ کی رپورٹ نے بھی سوال اٹھائے ہیں۔ خطرے کی گھنٹی 125ایم ایم ٹینک کے لئے گولہ بارود ضروری سطح سے کافی کم ہے۔ 16 ہزار راؤنڈ کے لئے روس سے گولہ بارود ملنے کا انتظار ہے۔122 ایم ایم ہائی اینرجی ریڈیوز چارج 1.27 دن تک چل پائیں گے۔ او ایف بی کے ذریعے مہیا کرائے گئے گولہ بارودوں میں کافی خرابی پائی گئی۔ سرکار کا دعوی ہے کہ جنگ ہونے پر فوج کے پاس 30 دنوں تک لڑنے کے لئے واجب مقدار میں گولہ بارود ہے۔گولہ بارود کی اس کمی کی بڑی وجہ گھوٹالوں کے چلتے کئی دفاعی کمپنیوں پر روک لگانا بھی ہے۔ کیگ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کئی توپوں میں دوسری عالمی جنگ کے زمانے کی تکنیک کا استعمال ہورہا ہے۔ اگر کوئی 16-17جنوری کی خبر اور اس کے بعد ہو رہی خبروں کو تفصیل سے پڑھ لے تو اسے ماننا ہوگا کہ حالت بیحد تشویشناک ہے۔ یہ نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ آزاد بھارت کے اتہاس میں فوج اور سرکار کا تعلق سب سے نچلی سطح پر ہے۔
A K Antony, Anil Narendra, Daily Pratap, General V.k. Singh, Indian Army, Vir Arjun

تبصرے

  1. India, pakistan our china ko aisee policeyes apnanay ke zarorat ha ke ye aslehay ke dour khitam ho jaiaye

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ