مایاوتی اب آگے کیا کریں گی؟



Published On 15 March 2012
انل نریندر
بہوجن سماج پارٹی کی چیف و اترپردیش کی سابق وزیر اعلی مایاوتی کے مستقبل کو لیکر سبھی کو پریشانی تھی کہ اب آگے وہ کیا کریں گی؟ چناؤ میں کراری ہار کے بعد بہن جی کے سیاسی مستقبل میں بے یقینی ضرور پیدا ہوگئی تھی۔ فی الحال لگتا ہے کہ بہن جی مرکز کی سیاست کریں گی۔ انہوں نے راجیہ سبھا کے لئے پرچہ داخل کردیا ہے۔ اس سے پہلے پیر کو لکھنؤ میں ایک ایسا منظر سامنے آیا جس کا تصور کرنا بھی کچھ وقت پہلے تک ناممکن تھا۔ مایاوتی کے سامنے جب وہ وزیر اعلی تھیں کسی کی مجال تھی کہ برابر کی کرسی پر کوئی اور بیٹھ سکتا ہو ۔ چاہے وہ ایم پی ہو، یا پارٹی کا سینئر عہدیدار ہو یا ممبر اسمبلی ہو سبھی کو زمین پر بیٹھنا پڑتا تھا۔ مایاوتی اکیلی کرسی پر بیٹھتی تھیں۔ہار کے بعد پیر کو بسپا ممبران اسمبلی کی میٹنگ ہوئی تو راجیہ سبھا میں پارٹی کے امیدواروں کا انتخاب ہونا تھا۔ راجیہ سبھا کی 10 سیٹوں کے لئے پیر کو نامزدگی کا کام شروع ہوگیا ہے۔ بسپا کے ممبران اسمبلی کی تعداد کے حساب سے 2 سیٹیں بسپا جیت سکتی ہے۔ ایک سیٹ پر تو خود بہن جی کھڑی ہورہی ہیں دوسری پر وہ چاہتی تھیں کہ مایاوتی سرکار میں کیبنٹ سکریٹری ششانک شیکھر پرچہ بھریں ۔ لیکن ان کے نام پر بسپا ممبران اسمبلی نے اختلاف جتا دیا۔ کیونکہ مایاوتی سرکار میں وہ وزراء اور ممبران اسمبلی پر بھاری تھے۔
وزیر اعلی سے ملاقات سے لیکر ان کی سفارشوں پر عمل تبھی ہوتا تھا جب کیبنٹ سکریٹری اس پر اپنی حامی بھردیا کرتے تھے اور اپنے کو نظرانداز کرنے سے بسپا ممبران میں ناراضگی تھی۔ پیر کو جب راجیہ سبھا کے لئے امیدواروں پر اتفاق رائے بنانے کیلئے بسپا ہیڈ کوارٹر میں پارٹی ممبران اسمبلی کی میٹنگ بلائی تو انہوں نے ششانک شیکھر پر اختلاف پیش کردیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جس افسر نے گدی پر رہتے ہوئے ان لوگوں کی نہیں سنی اسے کیسے راجیہ سبھا کے لئے ووٹ دلوا سکتے ہیں۔ ممبران کے ذریعے بتائے گئے کاموں کو نظرانداز کرنے کے چلتے ہی وہ جنتا کے مسائل دور نہیں کرسکے۔ ناراض جنتا نے پارٹی امیدواروں کو اسمبلی چناؤ میں ہرادیا۔
ذرائع کا کہنا ہے بسپا چیف مایاوتی نے نیتاؤں کی اس ناراضگی کا نوٹس لیتے ہوئے دعوی کیا ۔ پارٹی کسی دھنا سیٹ یا افسر شاہ کو راجیہ سبھا بھیجنے کی پہل نہیں کرے گی بلکہ مسلم سماج یا پسماندہ طبقے کے کسی شخص کو راجیہ سبھا میں بھیجے گی۔ اس طرح منقاد علی کا فیصلہ ہوا۔ ہار سے پہلے کیا کوئی تصور کرسکتا تھا کہ بہن جی کی بات کی کھلی بغاوت ممکن ہے۔ مایاوتی نے مرکز کی سیاست کا فیصلہ اس لئے بھی کیا کہ انہیں لگتا ہے لوک سبھا کے وسط مدتی چناؤ ہونے والے ہیں۔ مایاوتی 2003ء میں اپنی سرکار کے زوال کے بعد راجیہ سبھا کی ممبر بنی تھیں کیونکہ ریاست میں اب سپا کی سرکار کی تشکیل 15 مارچ یعنی آج ہوجائے گی اور مایاوتی نے صاف کردیا ہے کہ ان کی پارٹی بلدیاتی چناؤ میں حصہ نہیں لے گی۔ ایسے میں بسپا کے لئے ریاست میں سیاسی سرگرمیوں کی اب زیادہ گنجائش نہیں بچی ہے۔ سپا کے راجیہ سبھا ممبران کی رداد ابھی 5 ہے اور بڑھ کر 10 ہوجائے گی۔ بسپا آنے والی اپریل میں ودھان پریشد کے چناؤ میں بھی اپنے ممبر اتارے گی۔ ودھان پریشد کی 100 سیٹوں کی کل تعداد میں بسپا کے 65 ممبر ہیں۔ دیکھیں دہلی میں مایاوتی کیا گل کھلاتی ہیں۔
Anil Narendra, Bahujan Samaj Party, Daily Pratap, Mayawati, Samajwadi Party, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟