ایک دیش ،ایک آئین، ایک نشان !

جموں و کشمیر کی تاریخ اور جغرافیہ 173برس کے بعد بدل گئے اب جموں وکشمیر میں ستر سال پرانا نظام کے خاتمے کے بعد نیا انتظامیہ سسٹم نافذ ہو گیا ہے ۔اور سیاست کے ساتھ متحدنئے دور کی شروعات ہوئی ہے ۔ایک نئے تاریخی واقعہ کے تحت جموں و کشیر کو خصوصی ریاست کا درجہ جمعرات کو ختم ہو گیا اور اس کے ساتھ ہی با قاعدہ طور سے مرکزی حکمراں ریاست میں بانٹ دیا گیا ۔اگلے 370کے تقاضوں کو بے اثر کرنے کی 87دن بعد31اکتوبر2019کو جموں و کشمیر اور لداخ کو دو مرکزی حکمراں خطوں کی شکل میں آگئے ہیں جسے بھارت اور سابقہ ریاست کی تایخ میں میل کا پتھر کہا جا سکتا ہے ۔دونوں مرکزی حکمراں ریاست دیش کے پہلے وزیر داخلہ اور 560سے زیادہ ریاستوں کا انظمام کرانے والے سردار بلھ بھائی پٹیل کی جینتی کے موقعہ پر وجود میں آگئے ۔کل ریاست 28اب مرکزی حکمراں ریاستوں کی تعداد نو ہو گئی ہے ۔یہ پہلی بار ہے جب کسی ریاست کو دو مرکزی حکمراں ریاستوں میں بانٹا گیا ہے ۔دونوں جگہ رنویر قانون کی جگہ ہندوستانی آئین آئی پی سی اور کرمنل پروسیجر کورٹ (سی آر پی سی)کی دفعات نافذ ہوں گی ۔نئے جموں و کشمیر میں پولس و قانو ن نظام مرکزی سرکار کے ماتحت رہے گا جبکہ زمینی نظام کی دیکھ ریکھ کا ذمہ منتخب سرکار کے تحت ہوگا ۔موٹے طور پر اب یہ رد و بدل ہوگی پولس :جموں و کشمیر میں پولس میں ڈائرکٹر جنرل کا عہدہ قائم رہے جبکہ لداخ میں اسپیکٹر جنرل پولس کا سربراہ ہوگا پولس مرکزی کی ہدایت پر کام کرئے گی ۔کورٹ:فی الحال جموں وکشمیر کی سری نگر اور جموں بنچ موجودہ سسٹم کے تحت ہی کام کریں گی لداخ کے معاملوں کی سماعت بھی پہلے جیسے ہوگی ۔مرکزی نیم فورس :دونوں مرکزی حکمراں ریاستوں میں مرکز کی ہدایت پر ہی سینٹرل سیکورٹی فورس تعینات ہوگی ۔کمیشن:جموں و کشمیر کے لداخ میں کام کر رہا کمیشن کی جگہ مرکزی سرکار کے کمیشن اپنا کردار نبھائیں گے ۔افسر شاہی:اعلیٰ انتظامی اور اعلیٰ پولس افسر اور دوسرے مرکزی حکام اور کرپشن مخالف بیورو لیفٹ نینٹ گورنر کے کنٹرول میں رہیں گے نہ کہ جموں وکشمیر مرکز حکمراں ریاست کی منتخب سرکار کی تحت ہوں گے ۔مستقبل میں جموں و کشمیر اور لداخ میں افسران کی تقرریاں ارونچال پردیش ،گوا،میوزرم،اور یونین کیڈر سے ہی کی جائیں گی ۔اب ہر جگہ ایک ہی جھنڈا ہوگا جو ترنگا۔تشکیل نو کے باوجود وجود میں آئے نئے جموں و کشمیر میں دھائیوں سے شہریت کو ترس رہے لاکھوں لوگوں کو نئی زندگی ملے گی ۔مغربی پاکستان سے آئے ریفیوجی ،بالمیکی سماج ،گورکھا ،دوسرے ریاستوں میں بھی گئی جموں و کشمیر کی بیٹیوں کو شادی کے بعد بھی تمام حقوق ملیں گے ۔35اے کے تحت دوسری ریاست میں شادی کرنے والی بیٹیوں کو اپنی ریاست کی شہریت کھونی پڑتی تھی شہریت ثبوت نامہ جموں وکشمیر میں زمین خریدنے یا پھر آبائی جائیداد سے حق کھو بیٹھتی تھیں نئے جموں وکشمیر میں یہ سب قانون ختم ہو گئے ہیں ۔اس فیصلے سے جہاں ریاست میں ترقی کا راستہ کھلے گا وہیں لاکھوں بے روزگاروں کو روزگار ملے گا لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اور اس کے پٹھو اس فیصلے کی جم کر مخالفت بھی کریں گے جموں کشمیر میں جس طرح سے غیر ریاستی مزدوروں اور سیب کی ڈھلائی کرنے والے ٹرکوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اس سے عام حالات کی بحالی کے چیلنج کو سمجھا جا سکتا ہے ۔پانچ اگست کو جموں وکشمیر کی تقیسم کے بعد سے وہاں بڑی تعداد میں سیکورٹی فورس کی تعیناتی کی گئی ہے ۔اس کے باوجود دہشتگردی کے واقعات میں کمی نہیں ہوئی ہے ۔وہ ہو رہے ہیں ۔گولے پھینکے جا رہے ہیں ،جبکہ کشمیر میں مکمل طور پہ تالا بندی ہے ۔یہ پتہ نہیں کتنے دن تک چلے گی ۔کھلے کے بعد کیا حالات بنتے ہیں یہ بھی ایک برنگ سوال ہے ۔پھر پاکستان لاک ڈاﺅن کے خلاف دنیا میں جو ماحول بنا رہا ہے اس سے نمٹنا بھی ایک چیلنج ہوگا سرحد پار سے جس طرح سے بھڑکانے والی کارروائی ہو رہی ہے اس سے صاف ہے کہ کشمیر وادی میں عام زندگی پوری طرح سے بحا ل ہونے میں وقت لگے گا ۔اس بارے میں مرکزی حکومت اور مقامی انتظامیہ کو دوہری چنوتی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔نئے حالات میں جموں وکشمیر میں عام زندگی کو پٹری پر لانا اور دوسرے بین الا اقوامی برادری کا اعتماد حاصل کرنا در اصل جموں وکشمیر اور لداخ میں نئی صبح کا آغا ز تو ہو گیا ہے لیکن ساتھ ہی ایک بڑی ضرورت سبھی طبقات میں اعتماد کی بحالی کی بھی ہے ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟