اسمبلی چناﺅ نتیجے سے ملے تھے اہم سندیش !

دو ریاستوں ہریانہ اور مہاراشٹر کے اسمبلی چناﺅ نتائج کم سے کم یہ تو سندیش دیتے ہیں کہ وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی بھارتیہ جنتا پارٹی بے شکست نہیں ہے ۔اور جنتا ریاستی حکومتوں کی غلطیوں کے لئے سزا دینے کو تیار ہے ،دوسرا سندیش بھی اتنا ہی واضح ہے کہ ووٹر اب لوک سبھا اور اسمبلی چناﺅمیں الگ الگ طریقے سے حالات کو دیکھتا ہے حالانکہ مہاراشٹر میں شیو سینا کے اتحاد کے ساتھ اس کی ایکتا بن گئی ہے ۔ہریانہ اسمبلی میں اسے کراری ہار ملی ہے ۔ب شک جوڑ توڑ سے بھاجپا سرکار بنا لے لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ ریاست میں ووٹ ان کے خلاف پڑا ہے ۔محض پانچ مہینے پہلے لوک سبھا چناﺅ میں بھاجپا نے اپنے دم پر تین سو سے زیادہ سیٹیں جیتیں تھیں لیکن اسے پچھلی مرتبہ کے مقابلے میں قریب 20سیٹیں کم ملی ہیں وہیں ہریانہ میں بھاجپا نے 75سیٹیں پانے کا دعوی کیا تھا لیکن وہ ٹارگیٹ سے بہت دور رہی ۔سچ کہا جائے تو یہ اس کے لئے بہت بڑا دھکا ہے ۔دونوں ریاستوں میں یہ لگ نہیں رہا تھا کہ کانگریس پورے من سے چناﺅ لڑ رہی ہے ۔کانگریسی لیڈر شپ کی طرف سے چناﺅ میں کوئی مورچہ بندی کی جھلک نہیں تھی ۔باوجود اس کے ہریانہ میں کانگریس کی پرفارمینس اتنی اچھی ہوئی ہے تو یقینی ہے کہ یہ بھاجپا کی پردیش سرکار کے خلاف ناراضگی کی علامت ہے منوہر لال کھٹر سرکار کے زیادہ وزراءکی ہار بتا رہی ہے کہ سرکار کو لے کر عام جنتا کے ساتھ ساتھ پارٹی کے اندر بھی ناراضگی تھی ۔چناﺅ میں ووٹر جب ووٹ ڈالتے ہیں تو وہ صرف امیدوار کو جتاتے یا ہراتے نہیں ہیں ۔وہ امیدواروں اور سیاسی پارٹیوں کو صاف پیغام بھی دیتے ہیں ۔چناﺅ کے دوران پولنگ کے بعد تک یہ مانا جا رہا تھا کہ دونوں ہی ریاستوں میں بھارتیہ جنتا پارٹی زوردار طریقہ سے اقتدار میں واپسی کرئے گی ۔یہاں تک کہ پولنگ کے بعد کے تمام سروے ایک کو چھوڑ کر یہی دعوی کر رہے تھے ایسے نتیجوں پر پہنچنا سب سے آسان بھی بہت تھا سبھی یہی اشارہ دے رہے تھے کہ دونوں ریاستوں میں بھاجپا کی شاندار واپسی ہو گی ۔اور یہ بھی اشارہ تھا مودی کے کرشمے اکیلے پر اسمبلی چناﺅ پر نہیںجیتے جا سکتے ۔مودی کا جادو گھٹنے کا یہ واضح اشارہ کہ اسمبلی چناﺅ اور لوک سبھا انتخابات میں ایک بنیادی فرق ہے ۔وہ ہے الگ الگ اشو ہونا مثال کے طورپر ہریانہ جہاں تقریبا ہر گاﺅں سے فوجی آتے ہیں میں راشٹرواد کا اشو نہیں چلا ریاستی حکومت نے پچھلے پانچ سال میں کیا کام کیا ہے اس پر ووٹ پڑے ہیں خو دوزیر اعظم مودی اور بھاجپا کے نیتا امت شاہ نے مہاراشٹر ہریانہ میں جموں و کشمیر میں ارٹیکل 370کو بے اثر کرنے اور قومی سلامتی جیسے اشوز کو زوردار ڈھنگ سے اُٹھایا تھا لیکن نیتجے بتاتے ہیں کہ ووٹروں کے لئے اقتصادی مندی بے روزگاری اور زراعت سیکٹر میں مایوسی جیسے اشو زیادہ ہاوی رہے ۔اپوزیشن بھی خاص کر دیش کی سب سے پرانی کانگریس پارٹی چناﺅ سے پہلے تک سب سے بڑی مینڈیٹ والی ہوتی تھی کو یہ بھی نتیجے پیغام دیتے ہیں ؟کیا وہ اپنے اس مینڈیٹ کو واپس لانے پر پھر سے غور کرئے گی ۔اور اپنی اہمیت کو اجاگر کرئے گی تو کیا جو پیغام عوام نے دیا ہے وہ صحیح کرنے کے لئے تھا آنے والے دنوں میں نوجوان لیڈر آدتیہ ٹھاکرے ،دشینت چوٹالہ کی قیادت میں شیو سینا اور جے جے پی کو اپنی بنیاد مضبوط کر نی ہوگی ۔کیونکہ اتحادی بھاجپا اتحادیوں کی بنیاد پر ہی اپنے مفاد کی تکمیل کرنے میں ماہر رہی ہے ۔مقابلے میں جو سیاسی پارٹی ہے وہ آج بھلے ہی اس کی اکیلی قیادت رہ گئی ہو لیکن بنیادی طور سے آئیڈیا لوجی اور کیڈر اور عزم والی پارٹی رہی ہے ۔لوک سبھا چناﺅ میں بھاجپا سے ملی کراری ہار سے مایوس بھلے ہی اپوزیشن کو مہاراشٹر ہریانہ میں اور کئی ریاستوں کے ضمنی چناﺅ نتائج سے نہ صرف سنجیونی ملی ہے ۔بلکہ یہ انہیں پیغام دینے میں بھی کامیاب رہی ہیں ۔اگر اپوزیشن پوری تیاری سے چناﺅ میں اترے تو بھاجپا کے قلوں کو ڈھا سکتی ہے ۔ہریانہ اور مہاراشٹر اور کئی ریاستوں میں ضمنی چناﺅ میں اپوزیشن میدان میں تو تھی لیکن آدھی ادھوری تیاری سے حال ہی میں لوک سبھا چناﺅ میں کراری ہار کے بعد صدمے میں ڈوبی اپوزیشن پوری طرح نکل نہیں پا رہی ہے ۔رہی سہی کسر چناﺅ سے پہلے کانگریس سمیت دیگر اپوزیشن پارٹیوں ،میں بھاجپا کی سیندھ ماری ،سی بی آئی ،ای ڈی کے ذریعہ کی گئی کارروائی کو پوری طرح سے مایوسی میں ڈال دیا تھا اور اخلاقی طور سے بڑھت حاصل کر لی تھی لیکن چناﺅ میں جس طرح اب نتیجے آئے ہیں وہ یہ بھی اشارہ دے رہے ہیں کہ مقامی سطح پر لوگوں کا بھروسہ بھاجپا سے اُٹھ رہا ہے اور اسے ٹھوس متابادل کی ضرورت محسوس ہونے لگی ہے ۔اگر ایسے آنے والے دیگر ریاستوں کے چناﺅ میں اپوزیشن متحد ہو رک پوری شدت سے چناﺅ میدان میں کودی تو یقینی طور سے بھاجپا کو مات دی جا سکتی ہے ۔نتیجوں سے ہمیں کئی پیغام ملتے ہیں ۔راشٹر واد مذہبی اشو پر ہر چناﺅ جیتنے کی گارنٹی نہیں ہو سکتی مقامی اشوز کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔اگر کروگے تو وہ بازی مار سکتا ہے ۔خاص کر اسمبلی انتخابات میں مندی اور مہنگائی اور بے روزگاری سے پیدا مایوسی اور ناراضگی کہیں نہ کہیں عوام میں جگہ بنا رہی ہے ان تینون مسئلوں کو بھلانا غلط ثابت ہوگا ۔نتیجوں سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ پی ایم مودی نریندر مودی کی مقبولیت میں کمی آئی ہے لیکن بی جے پی حکمراں ریاستی سرکار وں کے خلاف اقتدار مخالف لہر بھی ہے ذات پات کی گول بندی سے سیاسی صورت بدل سکتی ہے ۔ہریانہ میں جاٹ بنام غیر جاٹ مہاراشٹر میں برہمن بنام مراٹھا کے درمیان خیمے بازی نے نتیجوں کو کافی متاثر کیا ہے ۔مہاراشٹر اور ہریانہ بھاجپا کو ہوئے نقصان کی کچھ وجوہات واضح ہیں۔مقامی اشوز کے بجائے کشمیر ،راشٹرواد ،پاکستان،سلامتی اشو ،اٹھائے نہ تو ریاستی سرکارکی کامیابیاں اور نہ ہی سرکار مخالف سیکٹر پر توجہ دی گئی بڑھتی خو دا عتمادی نے بھی بھاجپا کو نقصان پہنچایا ایسے میں تازہ نتیجے بھاجپا کو اپنی حکمت عملی پر پھر سے غور کرنے کی طرف اشارہ دے رہے ہیں ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟