پیگاسس کی منصفانہ تحقیقات کا سوال!

جمہوریت میں کسی بھی محاذ پر شبہہ کی گنجائش کم سے کم ہونی چاہیے اسی سمت میں سپریم کورٹ کی طرف سے آیا اظہار نامہ قابل خیر مقدم ہے کہ پیگاسس معاملے کی جانچ کے لئے سپریم کورٹ کے لئے ایک مخصوص کمیٹی تشکیل کرے گی ۔چیف جسٹس این وی رمن کی سربراہی والی بنچ سے اس معاملے میں آزادانہ جانچ کی درخواست کرنے والی عرضیوں پر اگلے ہفتے حکم جاری ہونے کی امید ہے ۔ویسے بہتر یہی ہوتا کہ مرکزی سرکار اپنے ہی سطح پر معاملے کو آگے بڑھنے نہیں دیتی اس تکنیکی ماہر کمیٹی کے ممبران کی تقرری بھی بڑی عدالت کے ذریعے کی جائے گی اس سلسلے میںبڑی عدالت کا ارادہ جانچ کمیٹی کے سلسلے میں حکم اسی سماعت میں پاس کرنے کا تھا ۔لیکن کچھ ان لوگوں کے جنہیں عدالت کمیٹی نہیں رکھناچاہتی تھی وہ شخصی وجہوں سے کمیٹی کا ممبر بننے سے انکار کر دینے کے سبب ایسا نہیں ہو پایا ۔چیف جسٹس اس بنچ کی رہنمائی کررہے ہیں جس کے پاس ان عرضیوں کا ایک پورا گروپ ہے جن میں غیر قانونی جاسوسی کی جانچ عدالت کی نگرانی میں کرانے کی مانگ کی گئی تھی ۔عدالت نے تین ستمبر کو اپنا حکم محفوظ رکھ لیا تھا.جہاں تک مرکزی سرکار کی بات ہے تو اس نے یہ سامنے لانے سے انکار کر دیا تھا کہ اس کی ایجنسیوں نے اسرائیل کے ساف وئیر کا استعمال کیا ہے یا نہیں ؟ سرکار کو ایسے جواب کے لئے سپریم کورٹ کے پاس کوئی متبادل نہیں رہ گیاتھا ۔وہ خود جانچ کمیٹی قائم کریں اب سپریم کورٹ کی بنچ اس پہل سے جہاں عدلیہ کے تئیں اعتماد میں اضافہ ہوگا وہیں سرکاری ایجنسیوں کے ساتھ ٹکراو¿ میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے ۔امید کی جانی چاہیے کہ کسی طرح کا آئینی بحران نہ پیدا ہو دھیان رہے سرکار اگر جانچ کو روکے گی تو ان لوگوں کو جواب دینا پڑے گا ۔بڑا سوال یہ نہیں ہے کہ ان لوگوں کی جاسوسی کی گئی بڑی تشویش یہ ہے کہ کیا غیر ملکی سافٹ ویئر کا من مانا استعمال ہوا ہے ۔سافٹ ویئر کا استعمال کا فیصلہ من مانا ہوا ۔سافٹ ویئر کا استعمال کس نے کیا ؟ چیف جسٹس کا اشارہ اس معنی میں اہم ہے کہ خود سرکار نے تین ستمبر کو ہی سماعت کے دوران پرائیویسی کی عدالی کے الزمات کے لئے اسپیشل کمیٹی بنانے کی تجویز رکھی تھی ۔سرکار کا کہنا تھا کہ وہ جو کمیٹی بنائے گی وہ سپریم کورٹ کے تئیں جواب دہ ہوگی ۔عرضی گزار کا کہنا تھا کہ سرکار کو خود جانچ کمیٹی بنانے کی اجازت کیوں کی جائے ؟ تب حکومت نے یقین دلایاتھا کہ کمیٹی سرکار کا کوئی کنٹرول نہیں ہوگا سرکار کی یہ پیشکش اس وقت سامنے آئی جب بڑی عدالت نے پرائیویسی کی خلاف ورزی کے الزامات پر سخت رخ اپناتے ہوئے اس سے مفصل حلف نامہ دینے کو کہا تھا ۔لیکن سرکار نے قومی سلامتی کا حوالہ دیتے ہوئے مفصل حلف نامہ دینے سے انکار کررہی تھی ۔اس معاملے میں سرکار پر اسرائیلی کمپنی این ایم او کے پیگاسس سافٹ ویئر کے ذریعے سیاست دانوں وکیلوں ،سرکاری افسروں اور صحافیوں کی ناجائز طریقہ سے جاسوسی کرنے کا الزام لگاتے ہوئے جانچ کی مانگ کی تھی ۔سرکار نے سیکورٹی کا حوالہ دیتے ہوئے زیادہ تفصیل دینے سے انکار کر دیا ۔عدالت کا یہ نظریہ تھا کہ پرائیویسی کی عدالی کے الزام جن افراد نے لگایا ہے ان کے الزامات کی جانچ سے قومی سلامتی کا کوئی لینادینا نہیں ہے ۔اس معاملے میں شبہہ اس وقت بڑھا جب انٹرنیشنل میڈیا کی سرخیاںبننے کے بعد اسرائیلی کمپنی نے صاف کر دیا تھا کہ اس نے اپنا سافٹ ویئر سرکاری ایجنسیوں کے علاوہ کسی کو نہیں بیچا۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟