کانگریس کا مسلسل گرتا سیاسی گراف


عام طورپر ضمنی چناؤ نتائج کا اتنا اثر نہیں ہوتا لیکن جو حالات آج کل ہیں ان میں حال میں ہوئے ضمنی چناؤ کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ دیش میں کانگریس کے خلاف تیزی سے ہوا بہہ رہی ہے۔ مہنگائی ،بدعنوانی اور خوردہ بازار میں ایف بی آئی کے خلاف بنے ماحول کے درمیان دو لوک سبھا سیٹوں کے ضمنی چناؤ میں ووٹروں نے کانگریس کے تئیں اپنے نظریئے کو کافی حد تک صاف کردیا ہے۔ اتراکھنڈ کی ٹہری سیٹ سے وزیر اعلی وجے بہوگنا کے بیٹے ساکیت بہوگنا چناؤ ہار گئے ہیں۔ یہ سیٹ بی جے پی کے کھاتے میں گئی ہے۔ ادھر مغربی بنگال کے جنگیر پور سے صدر پرنب مکرجی کے بیٹے صرف2500 ووٹ سے ہی جیت پائے۔ یہ وہی سیٹ ہے جہاں سے پرنب داایک لاکھ سے زیادہ ووٹوں سے جیتے تھے۔ یہ بھی ممتا کی مہربانی سمجھئے کہ انہوں نے اپنا امیدوار کھڑا نہیں کیا نہیں تو ابھیجیت مکرجی ہار جاتے۔ اقتصادی اصلاحات پر دئے گئے فیصلوں کے بعد پہلی بار ہوئے ضمنی چناؤ کے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ عوام کس حد تک حکومت سے خفا ہے۔ اتراکھنڈ کے وزیر اعلی وجے بہوگنا دعوی کرتے تھے کہ مہنگائی کوئی اشو نہیں ہے لیکن بیٹے کی ہار نے ثابت کردیا ہے کہ مہنگائی کا زخم عوام کے دلوں پر کتنا گہرا ہے۔ ٹھیک ایک سال پہلے17 اکتوبر 2011ء کو حصار میں ضمنی چناؤ کے نتیجے سے کانگریس پارٹی کی جو ہار کا سلسلہ شروع ہوا تھا وہ رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ حصار سے ملی ہار کے بعد ممبئی میں ڈی ایم سی چناؤ، پانچ ریاستوں میں اسمبلی چناؤ میں کانگریس کو بری طرح ہار ملی۔ دہلی میونسپل کارپوریشن میں بھی کانگریس کو ہار کا منہ دیکھنا پڑا۔ آندھرا میں 18 میں سے15 اسمبلی سیٹیں کانگریس کے باغی رہے جگن موہن کے کھاتے میں گئیں۔عوام میں اتنی ناراضگی ہے کہ دہلی جیسی جگہ میں وزیر اعلی شیلا دیکشت کی ریلی میں چپل ،انڈے پھینکے جارہے ہیں۔ 
یوپی اے سرکار نئے نئے تنازعوں میں گھرتی جارہی ہے۔ کل ہی بابو لال مرانڈی کی جھارکھنڈ وکاس مورچہ نے سرکاری طور سے مرکز کی یوپی اے سرکار سے حمایت واپس لے لی۔ وہیں وزیر قانون سلمان خورشید پر کرپشن کے معاملے نے اتوار کو مشتعل شکل اختیار کرلی ہے۔ پچھلے ایک مہینے سے شاید ہی کوئی ایسا دن رہا ہوں جب کانگریس کے لئے کوئی نیا درد سر پیدا نہ ہوا ہو۔ رابرٹ واڈرا کے چلتے پارٹی کی سینئر لیڈر شپ پہلی بار نشانے پر آگئی ہے۔ اس سے پہلے سونیا گاندھی اور ان کے خاندان پر سیدھے حملے نہیں ہوا کرتے تھے لیکن رابرٹ واڈرا نے یہ سب بدل دیا ہے۔ اب تو خود کانگریسی پارٹی لیڈر شپ پر کھلے عام ہورہے ہیں۔ ایک سینئر کانگریسی لیڈر کا کہنا تھا کہ عوام کی یادداشت بہت کم ہوتی ہے وہ جلد ہی اسکینڈل بھول جائے گی لیکن یہاں تو ایک کے بعد ایک اتنے اسکینڈل سامنے آرہے ہیں کہ عوام کیا بھولے گی؟ اگر حالات ایسے ہی بنے رہے اور کانگریس کا گراف اتنی تیزی سے ہی گرتا رہا تو شاید مرکز کی منموہن سرکار بھاجپا کے ذریعے دئے گئے الٹی میٹم سے پہلے ہی گرجائے گی۔ کانگریس لیڈر شپ کو سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ وہ کرے تو کیا کرے؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟