دہلی میں جتنی ٹریفک قواعد کی خلاف ورزی ہوتی ہے اتنی اور کہیں نہیں

گذشتہ ہفتے میں ایک پرائیویٹ پروگرام میں شرکت کے لئے ممبئی گیا تھا۔ دہلی اور ممبئی میں ایک بہت بڑا فرق جو میں نے دیکھا تھا وہ ٹریفک قوائد کی تعمیل۔ ممبئی میں گاڑی ڈرائیور چاہے وہ کاروں کے ہوں ،یا دوپہیہ کے ہوں یا پھر آٹو کے ہوں، سبھی ڈسپلن میں چلتے ہیں، ٹریفک قوائد کی تعمیل کرتے ہیں۔ دہلی میں یہ صحیح ہے کہ گاڑیوں کی تعداد ممبئی کے مقابلے تین چار گنا زیادہ ہے لیکن شاید ہی کوئی ٹریفک قانون کی تعمیل کرتا ہوں یہ ہی وجہ ہے کہ دہلی میں جتنے لوگوں کا قتل ہوتا ہے اس میں چار گنا زیادہ لوگ سڑک حادثات میں مرتے ہیں۔ سب سے تکلیف دہ بات یہ ہے کہ اس میں کوئی بہتری نہیں ہورہی ہے اور سڑکوں پر مرنے والوں کی تعداد مسلسل بڑھتی جارہی ہے۔ حادثے کا معاملے درج کر مجرمانہ کارروائی کے بعد فائل ٹھنڈے بستے میں ڈال دی جاتی ہے کیونکہ ایسے معاملوں میں سزا نہ کے برابر ہے۔ بدقسمتی دیکھئے قتل کو لیکر خوب ہائے توبہ مچتی ہے۔ کہا جاتا ہے دہلی شہریوں کے لئے محفوظ نہیں ہے لیکن سڑکوں پر حادثے کم ہوں، لوگ بیدار ہوں اس طرف کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ ٹریفک پولیس بیشک وقتاً فوقتاً اسپیشل مہم چلا کر یا چھپے پمفلٹ جاری کر اس سمت میں قدم اٹھاتی ہے لیکن جب تک گاڑی ڈرائیور خود تھوڑے ڈسپلن میں نہیں آتے مسئلے کا حل نہیں نکل سکتا۔ سب کو جانے کی جلدی لگی رہتی ہے۔ لائن کے پیچھے لگنے کو کوئی تیار نہیں۔ لائن کو کاٹ کر آگے نکلنا چاہتے ہیں۔ بھلے ہی سامنے سے آرہے ٹریفک میں رکاوٹ کیوں نہ پڑے؟ حادثات ہورہے ہیں، لوگ مررہے ہیں لیکن گاڑی چلانے کے طور طریقوں میں بہتری نہیں آرہی۔ ڈرائیوروں کو پتہ ہے کہ وہ قانون کی خلاف ورزی کرکے گاڑی سڑک پر دوڑا رہے ہیں۔ گاڑی مالکان کو بھی یہ معاملوں ہے کہ ان کی گاڑی میں ٹریفک قوانین کی تعمیل نہیں ہورہی ہے لیکن سب چلتا ہے کی طرز پر وہ اپنے رویئے پر قائم ہیں۔ ڈرائیوروں کو دیکھئے کہ وہ اپنی گاڑی فٹا فٹ دوڑا رہے ہیں، مانولوگوں کی جان سے کھیلنا ان کی عادت بن چکی ہے۔ اعدادو شمار کی کہانی بڑی عجب ہے۔ سال2011ء میں راجدھانی میں قتل کی 543 وارداتیں ہوئیں وہیں سڑک حادثات میں مرنے والوں کی تعداد 2107 تھی۔ اس سال ٹریفک پولیس نے سختی دکھائی جس کا اثر سڑک حادثات میں کمی کی شکل میں سامنے آیا۔لیکن ابھی بھی راجدھانی کے کئی علاقوں میں ٹریفک پولیس کی مہم کامیاب ہوتی نظر نہیں آرہی ہے۔ شہر کے سرحدی علاقے جہاں سڑکوں پر آر ٹی وی دوڑتی ہیں، یا تین پہیہ یا فٹافٹ سواری سروس کھلے عام قوائد کی خلاف ورزی کررہی ہیں۔ مال بردار گاڑیوں میں جہاں سواریاں ڈھوئی جارہی ہیں وہیں اس کی ڈھلائی طاقت سے زیادہ سواریاں ڈھوکر تین پہیہ اور آر ٹی وی عام لوگوں کی جان سے کھلواڑ کرنے سے باز نہیں آتے۔ اتنا ہی نہیں شہر کی تمام سڑکوں پر ایسی انگنت گاڑیاں دوڑتی مل جائیں گی جن میں لائٹ یا انڈیکیٹر تو چھوڑئیے نمبر پلیٹ تک نہیں ہوگی۔ ایسے میں شہر کی سڑکوں پر چلنے والے شہریوں کی کہاں تک جان محفوظ ہے آپ خود ہی اندازہ لگا لیں؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟