سزائے موت نہیں جیل میں آخری سانس تک کی سزا!

دیش کی سپریم کورٹ نے کہاہے کہ مجرم کو موت کی سزا دینے کے بجائے اسے پوری زندگی جیل میں گزارنے کی سزا دی جا سکتی ہے ۔ایسی سزا دینے میں کوئی قانونی مسئلہ نہیں ہے۔ جسٹس ایس کے کول اورایم این سندریش کی بنچ نے یہ ریمارکس یوپی (لکھیم پور )ایک شخص رویندر کے معاملے میں دئے ہیں ۔ قصور وار رویندر کا ایک بچے کو بے رحیمانہ طریقے سے مارنے کے جرم میں موت کی سزا سنائی تھی ۔ جسے بعد میں پوری زندگی جیل میں گزارنے کی سزا میں بدل دیا گیا ۔ اس سزا کے بارے میں وہ 30سال سے جیل میں قید ہے اس نے اب پیرول پر باہر آنے کیلئے عرضی میں کہا ہے کہ پوری عمر جیل میں سزا کاٹنے کے متعلق معافی کی عرضی دینے کا فائدہ نہیں مل رہا ہے۔ موت کی سزا دینے کی جگہ پوری عمر جیل میں گزارنے کی سزا دی ہے۔رویندر نے 1990میں خاندانی رنجش میں ایک دس سالہ بچے کو زندہ آگ میں جھونک دیا تھا اس جرم میں الہ آباد ہائی کورٹ نے اسے موت کی سزا دی تھی اس سزا کو سپریم کورٹ نے 1997میں برقرار رکھا تھا ۔2010میں صدر جمہوریہ نے موت کی سزا کو معاف کرتے ہوئے اسے تا حیات جیل میں گزارنے کی سزا میں بدل دیا تھا ۔سپریم کورٹ نے 2021میں سزا ئے موت کی توثیق نہیں کی ہے اس دوران نے پانچ معاملوں میں شامل مجرموں کی سزا عمر قید میں بدل دی اور چار معاملے میں موت کی سزا معاف کرکے انہیں قصوروں سے بری کر دیا تھا ۔یہ معاملہ یوپی کا تھا عدالت نے کہا کہ صرف اس لئے کہ جرم ثابت نہیں ہے اس بنیاد پر کسی مجرم کو موت کی سزا نہیں دی جا سکتی کورٹ کی آئینی بنچ نے 1980میں دیا سنگھ بنام اسٹیٹ کیس میں مو ت کی سزا کو آئینی ٹھہرایا تھا اور بتا یا تھا کہ یہ سزا سنگین سے سنگین جرم میں ہی دی جانی چاہیے ۔سزا دینے کے بعد جج کو اس سزا کو دینے کی بنیاد کو مفصل طور پر بتانی ہوگی ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!