دنیا کے بڑے گھوٹالوں میں سے ایک وقف پراپرٹی

پچھلے کچھ عرصے سے وقف پراپرٹی پر تنازعہ سرخیوں میں ہے۔ وقف بورڈ ہے کیا؟ میں نے شری فیروز بخت احمد کے اس مضمون کو پڑھاجس کے مطابق وقف کی تاریخ تقریباً 1 ہزار برس پرانی ہے۔ وقف کا مطلب ہے ایسا پیسہ ۔ پراپرٹی جس کو غریب مسلمانوں، بیواؤں، طلاق شدہ خاتون، بے سہارابچوں وغیرہ کے اوپر خرچ کیا جائے۔ قرآن شریف میں صاف طور پر بیان کیا گیا ہے’ تمہاری مال و دولت میں غریبوں کا حصہ بھی ہے جو کو دینا تمہارا فرض ہے۔‘(سورۃ۔26 :آیت 19 ) اسی طرح سے ایک جگہ پر قرآن پاک میں لکھا ہے ’اگر تم اللہ کے قریب اچھے بندوں کی فہرست میں رہنا چاہتے ہو تو اپنی کمائی میں سے غریبوں کو عطیہ دو، جتنا ہو سکے زیادہ دو تاکہ اللہ بھی اسے دیکھے۔‘ (سورۃ۔3 : آیت 86) وقف دو طرح کا ہوتا ہے ایک تو وقف اللہ کے لئے دی جانے والی زمین، پراپرٹی دوسرا ہے وقف علاولادیعنی اپنے اولاد کے لئے زمین یا اثاثہ وغیرہ۔ وقفِ اللہ میں بادشاہوں ، نوابوں ،سرمایہ داروں وغیرہ نے ہمیشہ سے ہی اپنی پسماندہ قوم کے لئے زمین و جائیداد چھوڑی ہے۔ وقف جائیداد سے مدرسے و تعلیمی ادارے و پبلک ڈسپنسری، یتیم خانے، سرائے، پارک، مساجد، خانخاہیں، امام باڑہ وغیرہ وقتاً فوقتاً پر دئے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کی درگاہ کے چاروں طرف مغل بادشاہوں سے لیکر دیگر خوشحال لوگوں نے بری جائیدادیں اللہ کے نام پر وقف کردی ہیں جس کی وجہ سے درگاہ کے آگے کا پورا بازار اس کی جائیداد ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں دنیا کے سب سے بڑے گھوٹالوں میں سے ایک ہے وقف کی املاک کا زبردست گھوٹالہ۔ جس میں 375 لاکھ روپے کی زمین جو ریکارڈ میں درج گھوٹالے بازوں کے حوالے کی جاچکی ہے۔ بھارت میں وقف بورڈ کی تقریباً 6 لاکھ ایکڑ زمین ہے اور تقریباً 14.5 لاکھ رجسٹرڈ جائیداد ہیں جس کا دل کھول کر تیا پانچا کیا جاچکا ہے یا کیا جارہا ہے اور آگے بھی کیا جاتا رہے گا۔ بیچارہ عام مسلمان وقف کے چکر میں یہ بھی نہیں سوچ پاتا کے یہ مذہبی معاملہ ہے اور اس کا حل بھی ٹھیک طریقے سے کیا جارہا ہے۔ اس بیچارے کو کیا معلوم کے اس کے بھولے پن کی آڑ میں کیا خطرناک کانڈ ہورہا ہے۔ اگر اتنی وسیع جائیداد کو ٹھیک ڈھنگ سے استعمال میں لایا جائے تو ہندوستانی مسلمانوں و مسلم سماج کی کایا پلٹ ہوسکتی ہے۔ اس کے وارے کے نیارے ہوسکتے ہیں۔ تقریباً 4 لاکھ کروڑ کی جائیداد کا محض کرایہ بھی ڈھنگ سے جمع کیا جائے تو مسلم طبقے کے سبھی بچوں کی انجینئرنگ، میڈیکل وغیرہ پروفیشنل تعلیم کا خرچہ آرام سے نکل سکتا ہے لیکن اس سسٹم کو صحیح کون کرے؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟