کیا ممبئی کے ڈانس بار اب پھر گلزار ہوں گے؟

اگر ممبئی بلڈروں ،زمین مافیہ، سیاسی دبنگوں اور بالی ووڈ اور جھونپڑپٹیوں کا شہر بنا تو ممبئی بار بالاؤں کے لئے بھی مشہور ہوا۔ کئی فلموں میں بار ڈانسر کے سین دکھائے گئے۔اس ڈانس بار کی غضب کی کشش تھی۔ دنیا بھر میں یہ مقبول تھا۔ بار میں گھومنے آنے والے لوگوں کے لئے بار میں جانا شان مانا جاتا تھا اور یہ ٹورازم صنعت ہوا کرتی تھی۔ یہاں کی فلموں میں ڈانس بار کا سیٹ لگا کر فلمایا جاتا رہا ہے لیکن مدھر بھنڈارکر کے لئے یہ ایک موضوع بن گیا۔ اس میں بار کی اصلیت اور کشش دونوں کو اجاگر کیاگیا۔ ایک لڑکی تبو کیسے بار ڈانسر بنتی ہے ، اس کی کہانی دکھائی گئی جو کافی حساس ترین تھی۔ فلم اپنے محدود دائرے میں ہٹ ہوئی۔ بار ڈانسر شگفتہ رفیق ایک مثال ہے، جس نے ممبئی اور دوبئی کے باروں میں کام کرنے سے لیکر فلمیں لکھنے تک کا سفر طے کیا۔ شگفتہ اس وقت مہیش بھٹ کی خصوصی فلم کہانی رائٹر ہے۔ شگفتہ ’وہ لمحے‘ 2004 ء سے لیکر حال ہی میں آئی ’عاشقی 2-‘ تک ایک درجن فلموں کی کہانی لکھ چکی ہے۔ کئی بار ڈانسروں کی کہانی مافیہ ڈان تک سے جڑی ہوئی ہے۔ دراصل ڈان ان کی خوبصورتی پر فدا ہوجاتے تھے۔ کہتے ہیں کہ سپنا نام کی ایک ڈانسر پر داؤد فدا ہوگیا تھا۔ اس کے بعد پولیس کی ڈائریری میں آرزو نام کی ڈانسر کا بھی ریکارڈ تیار ہوا مگر سب سے زیادہ نام ترنم کا ہوا ۔جوہو کے دیپا بار میں ڈانسر کرنے والی ترنم کو دیکھنے کے لئے ملک و بیرون ملک سے لوگ آیا کرتے تھے۔2005ء میں پولیس نے اسے کرکٹ سٹے بازی کے معاملے میں گرفتار کیا تھا۔ اس کے پاس سے کافی پراپرٹی پائی گئی تھی۔ پولیس کا کہنا تھا کہ ڈانس بار ایک منظم صنعت بن چکا تھا۔ اس میں کالا اور سفید دونوں پیسے آیا کرتے تھے۔ ان باروں کا استعمال اپنے مفادات کے لئے کرتاتھا۔ ممبئی میں قریب 43 سال پہلے ڈانسر بار کا چلن شروع ہوا۔1976ء کے قریب مہاراشٹر کے غریب کھیتی ہار علاقوں سے آنے والی لڑکیوں پر بار مالکوں کی نظر پڑی ۔ انہوں نے ان لڑکیوں کو بار میں شراب پلانے کے لئے رکھ لیا۔ بعد میں سنگیت بھی جڑ گیا اور ڈانس بھی۔ 1984ء میں ماراشٹر میں رجسٹرڈ بار کی تعداد 24 ہوا کرتی تھی۔ 2005ء میں جب مہاراشٹر میں ڈانس بار پرروک لگی تو پردیش میں 2500 ڈانس باروں میں ایک لاکھ لڑکیاں کام کررہی تھیں۔ پابندی لگنے سے یہ 1 لاکھ ڈانسر بے روزگار ہوگئیں۔ مہاراشٹر سرکار کا کہنا ہے کہ ڈانس بار کی آر میں جسم فروشی کی شکایتیں بڑھیں۔ پورے پردیش میں فحاشیت کا ماحول بن گیا۔ اس کا نوجوانوں پر خاص طور سے برا اثر پڑ رہا تھا۔ محض347 ڈانسر باروں کے لائسنس تھے جبکہ چل رہے تھے 2500 ۔ ان ڈانس باروں کی وجہ سے قانون و نظام ٹھپ ہورہا تھا۔ دوسری طرف ڈانسروں کا کہنا ہے کہ تفریح کے لئے رقص کرنا جرم نہیں ہے۔ رقص ایک طرح سے اظہار آزادی ہے اس سے کسی طرح کا شک کرنا غیر قانونی ہے۔ اپنے طریقے سے زندگی گزر بسر کرنے کا اختیار سب کو ہے۔ اگر ڈانس باروں سے فحاشیت پھیل رہی تھی تو پابندی کے بعد صوبے میں فحاشیت اور دیگر جرائم میں کمی کیوں نہیں آئی؟ قریب68 فیصدی بار بالائیں ایسی تھیں جو پورے خاندان کے گزر بسر کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے تھیں۔ بے روزگاری کے سبب کئی بار بالاؤں نے خودکشی تک کر لی ہے۔ ریاست میں 1 لاکھ کے قریب بار ڈانسروں اور ان کی باز آبادکاری کے لئے کوئی متبادل حل نہیں ہے۔ سپریم کورٹ نے ڈانس باروں پر پابندی ہٹاتے ہوئے اپنے فیصلے میں یہ اہم رائے زنی کی جو معنی رکھتی ہے ،بھلا آپ کسی کی روزی روٹی کا حق کیسے چھین سکتے ہیں؟ اگر بار ڈانسر غلط ہے تو انہیں فائیو اسٹارہوٹلوں میں چلانے کی اجازت کس بنیاد پر دی گئی۔ آئین نے تو سب کو برابر کا حق دیا ہے۔ عدالت کا کہنا ہے پولیس قانون میں تبدیلی کرڈانس بار پر روک سرکار کا فیصلہ غلط تھا۔ بہتر ہو کے سرکار قانون و نظام کی صورتحال ٹھیک کرنے کے قدم اٹھائے۔ فحاشیت پر روک کے لئے سرکارہر سیکٹر میں الگ سے پہل کرے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے سے باروں کی بالاؤں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ وہ جشن منا رہی ہیں، مٹھائیاں بانٹ رہی ہیں لیکن مہاراشٹر سرکار سپریم کورٹ میں اپیل کرنے کی سوچ رہی ہے۔ دیکھیں ممبئی کے ڈانس بار کیا پھرسے گلزار ہوں گے؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟