جسٹس ایس عبدالنظیر !

افسر شاہی یا عدلیہ سے جڑے لوگوں کو بڑا عہدہ چھوڑتے ہی سرکاری یا سیاسی عہدہ حاصل کرنا چاہئے یا نہیں ؟ اس پر ایک بار پھر بحث چھڑ گئی ہے۔ بحث یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے سابق جج عبدالنظیر کو ریٹائر ہونے کے بعد ہی آندھرا پردیش کا گورنر بنا دیا گیا ہے۔وہ بنیادی طور سے کرناٹک کے رہنے والے ہیںاور اس سال 4جنوری کو جج کے عہدے سے ریٹائر ہوئے تھے ۔ وہ سپریم کورٹ میں کئی اہم فیصلے دینے والے بنچ میں شامل رہے ہیں۔ جس میں نومبر 2019میں بابری مسجد رام جنم بھومی جھگڑے پر تاریخی فیصلہ دینے والی مقدمے کی بنچ میں شامل تھے ۔اس طرح وہ نوٹ بند ی کے فیصلے کو بھی چیلنج کرنے والی سماعت کیلئے بنی بنچ کا بھی حصہ تھے ۔ اور اس بنچ کا بھی حصہ تھے جس نے تین طلاق کو ناجائز ٹھہرایا تھا۔ اب جسٹس نظیر کو گورنر بنائے جانے کے فیصلے پر اپوزیشن پارٹیاں سوال اٹھا رہی ہیں۔لیکن جسٹس نظیر ایسے پہلے جج نہیں ہیں جنہیں ریٹائر ہونے کے بعد اہم عہدہ ملا ہے ۔ سال 2014میں سرکار نے سپریم کورٹ کے ریٹائر ڈ چیف جسٹس پی سدا شیوم کو کیرل کا گورنر بنا یا تھا۔ سپریم کورٹ سے ریٹائر ہونے کے بعد وہ اپنے گاو¿ں لوٹ گئے تھے ان کی میعاد متنازعہ نہیں رہی ۔انہوںنے کئی اہم فیصلے دئے ۔حال ہی میں بھارت کے 46ویں چیف جسٹس رنجن گوگوئی کو سابق صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند نے مارچ 2020میں راجیہ سبھا کیلئے نامزد کیا تھا۔ کیوں کہ 2019میں ایودھیا تنازعہ پر فیصلہ دینے والی سپریم کورٹ کی بنچ کی سربراہی رنجن گوگوئی نے ہی کی تھی۔ اس کے علاوہ انہوںنے رفائیل سودے کا بھی جائزہ لیا اور راہل گاندھی کے خلاف توہین عدالت کے معاملوں کی بھی سماعت کی ۔ رفائل سودے میں سرکار پر کرپشن کے الزام لگے تھے ۔ لیکن رنجن گوگوئی کی بنچ نے رفائیل سودے کی جانچ کی مانگ کرنے والی عرضی کو خارج کردیاتھا۔ ساتھ ہی انہوںنے جمو ں وکشمیر میں آرٹیکل 370کو چیلنج کرنے والی عرضی کو بھی خارج کردیا تھا۔ یہ معاملہ صر ف ججوں کے سرکار عہدوں پر مقرر کرنے تک محدود نہیں ہے۔ چناو¿ سے ٹھیک پہلے اعلیٰ سول افسر اور اعلیٰ سول پولیس افسران بھی نوکری چھوڑ کرچناوی میدان میں اترتے ہیں ۔ الزام لگتے رہے ہیں کہ وہ کئی بار اپنی نوکری کے آخری دنوںمیں سیاسی آقاو¿ں کی وجہ سے ایسے افسر خاص سیاسی پارٹی کے نزدیک ہو جاتے ہیں جس سے ان کی وفاداری متاثر ہوتی ہے۔ ریٹائرمنٹ کے فوراً بعد سیاست میں داخل ہونے کے معاملے میں چناو¿ کمیشن اور سیاسی پارٹیوں کا شروع سے ہی مخالفت ہو رہی ہے۔ چناو¿ کمیشن نے اسے غلط روایت مانتے ہوئے ریٹائرمنٹ کے بعد کم سے کم دو سال تک چناو¿ لڑنے پر روک لگانے کی تجویز رکھی ہے۔اسے کولنگ آف پیرئڈ بھی کہا جاتا ہے۔ الیکشن کمیشن کی دلیل تھی کہ ریٹائرمنٹ کے بعد پرائیویٹ کمپنیوں میں کام میں بھی کولنگ آف پرییڈ دو سال کا ہوتا ہے۔ حالاںکہ 2015میں اس میں تبدیلی لاتے ہوئے دو سال سے گھٹا کر اسے ایک سال کردیا گیا تھا۔ کانگریس اور اپوزیشن پارٹیوں کا کہنا ہے کہ جسٹس عبدالنظیر کو سرکار کے حق میں اہم مقدموں میں فیصلے اہم فیصلے دینے میں اشتراک کیلئے انعام دیا گیا ہے۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟