جمہوریت میں اختلافی آواز کیا ملک سے بغاوت ہے ؟

سپریم کورٹ نے کانگریس ایم پی ششی تھرور اور صحافی راجدیپ سر دیسائی سمیت دیگر چھ صحافیوں کے خلاف ایف آئی آر کو لیکر ان کی گرفتاری پر روک لگا دی ۔معاملہ 26جنوری پر کسانوں کی ٹریکٹر پریڈ کے دوران ہوئے تشدد کو لیکر مبینہ طور پر گمراہ کن ٹوئیٹ کا ہے ۔چیف جسٹس ایس اے بووڑ ے کی سربراہی والی بنچ نے تھرور دیسائی مرنال پانڈے ،ظفر آغا ،ونود دوا اور اننت ناگ کی عرضی پر مرکز اور دیگر کو نوٹس جاری کرکے ان کا جواب مانگا ہے ۔بنچ نے کہا کہ وہ اس معاملے میں نوٹس نہیں جاری کررہی ہے تو تھرور کے وکیل کپل سبل نے کہا کہ تب تک عرضی گزاروں کے خلاف کوئی سزا سے متعلق کاروائی نہیں ہو بنچ نے کہا اس پر کچھ نہیں ہونے جارہا ہے خطرہ کہاں ہے ؟ سبل نے عدالت کے اس ریمارکس پر بھی اعتراض جتایا اور کہا کہ دہلی پولیس کی طرف سے پیش ہوئے سالی شیٹر جنرل اور پولیس بھی ہمارے کلائنٹ کو گرفتار کرنے کیلئے پہونچ سکتی ہے معاملے کی سماعت کے دوران ان کا تحفظ کیا جائے تب سپریم کورٹ نے سرکار وکیل تشار مہتا سے پونچھا کہ کیا پولیس گرفتاری کی تیار ی کررہی ہے ؟ تشار مہتا نے کہا کہ ٹوئیٹ توہین آمیز ہے ان کے لاکھوں فالوورس ہیں ہم دکھا سکتے ہیں ان کے ٹوئیٹ کا کیا مقصد ہوگا ۔تب بنچ نے سوال کیا کیا آپ (پولیس گرفتار کرنے جارہی ہے؟ )تشار مہتا نے کہا کہ ہم آپ کے سامنے ہیں معاملے کیلئے رکھا جائے سپریم کورٹ نے کہا ہم معاملے کی سماعت دو ہفتہ بعد کریں گے اس لئے عرضی گزاروں کی گرفتاری پر روک لگاتے ہیں ۔دنیا بھر میں سب سے قابل احترام ہے جمہوریت ایک دن میڈیا نا رہے تو اخبار نہیں نکل سکتا اگر اس میں اختلافی رائے کے معاملے کی منفی رائے یقینی نا کریں ۔سرکار کا اختلاف ملک سے بغاوت نہیں ہے نا ہی بیرون ممالک کے مقبول لوگوں اور اداروں کا بھارت کی تازہ حالات کو لیکر منفی تبصرہ یا ملکی اختلافی نظریہ ہے ۔1990کی دہائی میں امریکی کانگریس میں کشمیر اور پنجاب کو لیکر اس وقت حکومت ہند کے خلاف ایک ملامتی پرستاو¿ پاس ہوتے تھے ۔لیکن جیسے ہی بھارت سرکار نے امریکہ کو سچائی بتانا شروع کی تو امریکی کانگریس سرکار کے حق میں ہوگئی اگر سرکار صحیح ہے تو سنجیدگی سے اپنا موقف بھی رکھ سکتی ہے ۔کچھ ایسے ہی سرکاری عدم رواداری کا ثبوت دیش میں بھی اختلافی آوازوں کے خلاف دیکھنے کو مل رہاہے ۔بھارت کے قوانین میں ملک سے بغاوت کی ابھی تک کوئی واضح تشریح نہیں ہے ۔خطرہ یہ ہے ملک دشمنوں کوتلاشنے کے اس نئے دھندے کو کٹر نوجوان ریاست کی موت کااتفاق مان کر سماج نے ایک نیا واویلا شروع کر سکتے ہیں ۔پی ایم کے اختلافی آوازوں کو آندولن چلانے والے اور پیسہ لگانے والے آئیڈیا لوجی یعنی غیر ملکی تباہ کن نظریات بتانا جمہوریت میںاختلافی عدم رواداری کا بنیادی جذبہ تو نہیں لگتا ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟