50 دن نہیں مئی سے پہلے حالات ٹھیک ہونے کے آثار کم



جب سے نوٹ بندی نافذ ہوئی ہے تبھی سے یہ پورے دیش میں سب سے بڑا اشو بنا ہوا ہے کہ عام آدمی کا ہاتھ خالی ہے کیونکہ گھنٹوں لائن میں کھڑے ہونے کے باوجود انہیں 2 ہزار کا نوٹ بھی نہیں مل پارہا۔ وہیں پہنچ والے رسوخ دار شخص مست ہیں، بنا لائن میں لگے انہیں لاکھوں کروڑوں روپے کے نوٹ گھر پہنچ رہے ہیں۔ یعنی دو طرح کے حالات نظر آرہے ہیں ۔سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر ان رسوخ والوں کے پاس لاکھوں کروڑوں کے نوٹ پہنچے کہاں سے ہیں، وہ کون لوگ ہیں جو سسٹم کا فائدہ اٹھا کر لاکھوں کروڑوں کے نوٹ حاصل کررہے ہیں، کیا یہ معاملہ صرف بینک منیجروں سے سانٹھ گانٹھ کا ہے، اس کے پیچھے بڑی مچھلیاں ہیں؟ انکم ٹیکس محکمے کے چھاپوں میں جس طرح نوٹوں کی برآمدگی ہورہی ہے اس سے تو بڑی مچھلیوں پر ہی شبہ جارہا ہے کیونکہ بنا ان کی پیٹ پر ہاتھ رکھے اس طرح کا گورکھ دھندہ کیا ہی نہیں جاسکتا۔ کالا دھن والوں کے خلاف محکمہ انکم ٹیکس کے چھاپوں کا سلسلہ تیزی سے جاری ہے۔ نوٹ بندی کے بعد محکمے کی طرف سے اب تک (بدھوار تک)36 چھاپوں میں 1 ہزار کروڑ روپے کی غیر اعلانیہ آمدنی کا بھی پتہ لگایا گیا ہے۔ اس رقم میں سے 20.22 کروڑ روپے 2 ہزار کے نئے نوٹ میں ہے اور محکمے نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ 9 نومبر سے ڈالے گئے ان چھاپوں میں کرناٹک اور گووا میں بڑی رقم ملی ہے۔ دونوں ہی ریاستوں میں 29.86 کروڑ کی نقدی اور 41.6 کلو گرام سونا چاندی اور 14 کلو گرام کے زیورات ملے ہیں۔ 8 نومبر کو جب پی ایم مودی نے 8 بجے نوٹ بندی کا اعلان کیا تھا تو پی ایم نے کہا تھا کہ انہیں پورے حالات بہتر بنانے کیلئے صرف50 دن چاہئیں اب اس میں سے تقریباً38 دن گزر چکے ہیں لیکن حالات تقریباً وہی ہیں جو9 نومبر کو تھے۔ بینکوں اور اے ٹی ایم بوتھوں کے باہر لوگوں کی بھیڑ جوں کی توں بنی ہوئی ہے۔ نوٹ چھاپنے والے پریس کی صلاحیت اور نوٹ تقسیم کے بارے میں یہ برس2016ء کی ریزرو بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق پی ایم مودی کی جانب سے مانگی گئی میعاد کسی بھی قیمت پر حالت بہتر نہیں ہوں گے۔ بینکوں اور اے ٹی ایم تک کافی مقدار میں نئی کرنسی کی پہنچ اس بات پر منحصر کرے گی کہ سرکار واپس کتنے کی کرنسی لین دین میں لانا چاہتی ہے؟ نوٹ بندی سے پہلے 14 لاکھ کروڑ سے زائد کے بڑے نوٹ چلن میں تھے۔ اگر سرکار اس میں سے دو تہائی یعنی قریب 9 لاکھ کروڑ کی کرنسی بھی واپس چلن میں لانا چاہتی ہے تو اسے پورا کرنے میں ابھی 4 مہینے لگیں گے۔ دراصل مسئلہ 500 روپے کے کرنسی نوٹوں کا زیادہ ہے۔ دیش بھر میں نوٹ چھاپنے کے لئے دیواس، ناسک، سالبنی اور میسور ہیں۔ اگر انہیں تین شفٹوں میں بھی چلایا جائے تو ہر روز یہ قریب11.1 کروڑ نوٹ چھاپ سکتے ہیں لیکن مسئلہ یہ بھی ہے کہ ان پریسوں میں آدھی سے کم مشینیں ہی معیاری پیمانے والے بڑے نوٹ چھاپتی ہیں۔ ایسے میں اگر چاروں پریس کی مشینیں ہیں اعلی سکیورٹی معیار والے بڑے نوٹ چھاپتیں ہیں تو ایک دن میں کل2778 کروڑ کے 500 کے نوٹ چھاپ پائیں گی۔ نوٹ بندی کے اعلان سے پہلے حکومت نے 2 ہزار روپے کے 200 کروڑ نوٹ یعنی 4 لاکھ کروڑ روپے کے نوٹ کاانتظام کررکھا تھا۔ایسے میں جب 500 روپے کا نوٹ چھاپنے پرزور دیا جارہا ہے ابھی کم سے کم 5 لاکھ کروڑ روپے کے نوٹ کی ضرورت ہے۔ایسے میں یہ اتنے نوٹ چھاپنے کے قریب 180 دن لگیں گے۔ جس میں سے 38 دن گزر چکے ہیں۔ ہاں سرکار بیرونی ممالک سے بھی نوٹ چھپوا سکتی ہے لیکن اس میں خطرہ ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟