سرکاریں جھکتی ہیںجھکانے والا چاہئے !

ایران اس کی ایک برننگ مثال ہے ایران میںلڑکی مہسا امینی کی پولیس حراست میں ہوئی موت کے بعد حجاب کو لیکر جو مشتعل مظاہرے ہوئے اس سے آخر کار ایران سرکار کو جھکنا ہی پڑا ۔حکومت نے اپنے یہاں حجاب کے خلاف ہو رہے احتجاجی مظاہروں کے درمیاں اخلاقیاتی پولیس (مورلیٹی پولیس)کو ختم کر دیا ہے ۔اسے احتجاجی مظاہرہ کرہیں خواتین کیلئے ایک بڑی کامیابی کی شکل میں دیکھا جا رہا ہے۔ وہاں کے اٹارنی جنرل محمد ظفر نے خبر رساں ایجنسی آئی این اے کو بتایا کہ مورالیٹی پولیس کا جوڈیشری سے کوئی لینا دینا نہیں ہے ۔اس لئے اسے ختم کیا جا رہا ہے ۔ جنرل ظفر مونٹیجری کی رائے زنی ایک مذہبی کانفرنس میں سامنے آئی یہاں انہوںنے کانفرنس میں شامل مدعو شخص کو جواب دیا اس نے پوچھا تھا کہ مورالیٹی پولیس کو بند کیوں کیا جا رہا ہے؟ ایران کی مورالیٹی پولیس کو باقاعدہ طور سے گشت ارشاد کی شکل میں جا نا جاتا ہے ۔سال 2006میں اس وقت کے صدر مرحوم احمدی نزاد نے اس ایجنسی کو قائم کیا اور نرم گوئی اور حجاب کے کلچر کو پھیلانے کیلئے کیا تھا ۔ ایران میں 16دسمبر کو 22سالہ طالبہ مہسا امینی کی پولیس حراست میں موت کے بعد حجاب مخالف مظاہرے شروع ہو گئے تھے ان میں اب تک 300سے زائد لوگ مارے جا چکے ہیں ۔ اور ہزاروں کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا گیا ہے ۔مورالیٹی پولیس ان لوگوں اور خاص طور پر عورتوں کے خلاف سخت کاروائی کرتی رہی ہے جو دیش کے اسلامی قانون کے حساب سے کپڑے نہیں پہنتی یا کسی بھی شرعیہ قانون کو توڑتی ہیں۔وہاں صدر حسن روحانی کے دور میں لباس کو لیکر کچھ راحتیں دی گئیں تھیں تب عورتوں کو ڈھیلی جینس اور رنگین حجاب پہننے کی اجازت دی گئی تھی ۔جولائی میں جب ابراہیم رئیسی صدر بنے تو انہوںنے بہت سختی سے پرانے قانون کو نافذ کردیا ۔ غور طلب ہے کہ ایران میں 14دسمبر کو 22سالہ طالبہ مہسا امینی کی موت پولیس حراست میں ہو گئی تھی ۔ ایرانی پولیس نے مہسا امینی کو اس لئے حراست میں لیا تھا کیوں کہ انہوںنے اپنے سرکو نہیں ڈھکا ہوا تھا یعنی حجاب نہیں پہنا ہوا تھا ۔ ایران میں عورتوں کیلئے حجاب ایک ضروری قانون ہے مہسا امینی کی موت کے بعد پورے دیش میں مظاہرے شروع ہو گئے اور ہزاروں عورتیں اور مرد سڑکوں پر اتر آئے ۔ ایران میں ویسے تو حجاب کو 1979میں ضروری قرار دیا گیا تھا ۔ سب سے پہلے شاہ رضا پہلوی کے دور حکومت میں عورتوں کے کپڑوں کے معاملے میں ایران کافی آزاد خیال تھا ۔1963میں محمد رضا شاہ پہلوی نے عورتوں کو ووٹ دینے کا حق دیا ۔اور پارلیمنٹ کیلئے عورتیں بھی چنی جانے لگیں ۔1967میں ایران کے پرسنل لاءمیں بھی اصلاحات کی گئی جس میں عورتوں کو برابری کے حق ملے پڑھائی میں لڑکیوں کی ساجھےداری بڑھانے پر زور دیا گیا۔ ایران سرکار 40سال پرانے حجاب قانون پر پھر سے غور کرنے کو تیارہے۔ ایران کے صدر ابراہیم رئیسی نے سنیچر کو اس قانون میں نرمی لانے کے اشارے دئے ہیں۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟