سرینگرمیں اب تک سب سے کم ووٹنگ

دہشت گردوں اور علیحدگی پسندوں کے بائیکاٹ کے چلتے ایتوار کو سرینگر میں ہوئے ضمنی چناؤ میں اب تک کی سب سے کم 7.14 فیصد ووٹنگ سبھی کیلئے باعث تشویش ہے۔تشدد کے واقعات میں 8 لوگوں کی جان جانا اور محض 7.14 فیصدی پولنگ ہونا ہماری کئی ناکامیوں کی طرف ایک ساتھ اشارہ کرتا ہے۔ یہ وہی لوک سبھا سیٹ کی بات ہے جہاں پچھلی بار تقریباً 60 فیصدی ووٹ پڑے تھے۔ چناؤ بائیکاٹ کا تو تب بھی علیحدگی پسندوں نے اعلان کیا تھا خطرہ تب بھی تھا۔ جو لوگ بائیکاٹ کو نظر انداز کرتے ہوئے ووٹ ڈالیں گے انہیں دہشت گردوں کی زیادتیوں کا شکار بننا پڑسکتا ہے۔ اس کے باوجود لوگ بڑی تعداد میں گھروں سے باہر نکلے تھے اور ووٹ ڈالنے آئے تھے۔ 2014ء اسمبلی چناؤ میں تو ریکارڈ پولنگ ہوئی تھی۔ 2004ء کے لوک سبھا چناؤ میں بھی جموں و کشمیر میں قریب 50 فیصد زیادہ ووٹ پڑے تھے۔ سرینگر میں بھی تمام شرپسندوں کی کرتوت کے باوجود 26 فیصد پولنگ ہوئی تھی۔ یہ سوال اٹھنا فطری ہے کہ آخرضمنی چناؤ میں ایسا کیا ہوا کہ پولنگ فیصد بڑھنے کے بجائے اتنے نیچے چلا گیا جسے پولنگ کہنے میں بھی قباحت ہورہی ہے۔ حقیقت میں پوری حالت خوف پیدا کرنے والی ہے۔ جگہ جگہ پتھر بازوں کا دستہ پولنگ روکنے کے لئے دنگا پھیلا رہاتھا۔ سکیورٹی فورس پر حملے کئے گئے، کہیں پولنگ مرکز میں ای وی ایم توڑی گئی تو کہیں پولنگ مرکز کی عمارت کو نقصان پہنچایا گیا۔ اس بار جس طرح سے پتھراؤ اور تشدد ہوا اور لوگوں کی جان گئی اس نے بتایاکہ ووٹ ڈالنے کیلئے گھر سے نہ نکلنے والوں کو یہ احساس شاید پہلے ہی سے تھا یا پھر جو ماحول تھا اس نے انہیں سکیورٹی فورس کی کوئی یقین دہانی نہیں دکھائی دی۔ حریفوں کے لئے یہ کہنا آسان ہے کہ یہ ریاستی سرکار و چناؤ کمیشن دونوں کی ناکامی ہے لیکن جب فاروق عبداللہ جیسے سرکردہ نیتا پتھر بازوں کو وطن پرست کہہ رہے تھے یا یہ بتا رہے تھے کہ وہ بھوکے رہ جائیں گے لیکن پتھر چلائیں گے کیونکہ وہ کشمیر مسئلہ کے حل کے لئے ایسا کررہے ہیں تب فاروق کو احساس نہیں تھا کہ اس سے شرپسندوں کو حوصلہ اور بڑھے گا۔ تھوڑی غلطی چناؤ کمیشن نے بھی کی۔ وزارت داخلہ کے سینئر افسر کے مطابق وزارت کی طرف سے 10 مارچ کو ضمنی چناؤ کے پروگرام کا اعلان ہونے کے فوراً بعد سخت الفاظ میں چناؤ کمیشن کو خط لکھا تھا جس میں صلاح دی گئی تھی کہ کشمیر وادی میں ماحول ٹھیک نہیں ہے اس لئے ووٹنگ ٹالی جانی چاہئے۔ چناؤ کمیشن نے اب اننت ناگ لوک سبھا سیٹ پر 12 اپریل کو ہونے والے چناؤ کو 25 مارچ تک ٹال دیا ہے لیکن نقصان تو ہوچکا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟