شراب کا کاروبار کرنابنیادی حق نہیں

شراب کا کاروبار کرنا بنیادی حق نہیں ہے۔ سپریم کورٹ نے زندگی اور روزگار کے حق کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ روزگار کا اختیار شراب کے کاروبار پر نافذ نہیں ہوتا کیونکہ یہ آئینی اصول میں تجارت کے زمرے سے باہر ہے۔ اس کے علاوہ روزگار کا حق زندگی کے حق کے بعد آتا ہے۔ ہائی وے سے 500 میٹر کے دائرے سے شراب کی دکانیں ہٹانے کے حکم میں سپریم کورٹ نے زندگی اور روزگار کے حق کی تشریح کرتے ہوئے یہ بات کہی ہے۔ عدالت ہذا کے اس تشریح کے گھیرے معنی ہیں۔ شراب بندی کو غیر قانونی اور روزگار کی آزادی کے خلاف کہنے والوں کے لئے یہ قانونی جواز ہوسکتا ہے۔ عدالت نے کہا کہ قومی اور سرکاری شاہراؤں پر شراب کی فروخت کے نقصاندہ پہلو کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ سڑک حادثات کی سب سے بڑی وجہ شراب پی کر گاڑی چلانا ہے۔ آئینی اقدار میں زندگی کا حق سب سے زیادہ اہم مانا جاتا ہے۔ لوگوں کو ہیلتھ اور سلامتی کا تحفظ کرنا زندگی کے حق کو محفوظ رکھنے کا ذریعہ ہے۔ ہائی وے سے 500 میٹر کے دائرے میں شراب نہ بیچنے کے سپریم کورٹ کے حکم کے بعد دکانوں پر جنتا نے دھاوا بولنا شروع کردیا ہے۔ دکانیں اب ہائی وے سے ہٹ کر رہائشی علاقوں میں منتقل ہونے لگی ہیں۔ ادھر دکانیں گلی محلوں میں شفٹ ہونے سے عورتوں نے ان کے خلاف مورچہ سنبھال لیا ہے۔ اترپردیش کے کئی شہروں میں خواتین ان دکانیں، ٹھیکوں کے خلاف سڑکوں پر اتر آئی ہیں۔ میرٹھ میں گھنی آبادی والے اندرا پورم میں شراب ٹھیکہ کھولنے کے احتجاج میں دھرنے اور مظاہرے ہورہے ہیں۔ تین دنوں سے عورتوں نے ٹھیکہ کھلنے نہیں دیا اور بھجن کیرتن کرکے ٹھیکے کو ہٹانے کی مانگ کررہی ہیں۔ گورکھپور نیشنل ہائی وے سے ہٹا کر گورکھناتھ علاقے کے رام نگر اور ننھا میں شراب کی دکانیں شفٹ کئے جانے پر جم کر احتجاج ہورہا ہے۔ اسی طرح مراد آباد، وارانسی، آگرہ، کانپور اوربستی میں بھی مقامی عورتوں نے جم کر ہنگامہ کیا۔ کئی جگہ چکا جام تو کئی جگہوں پر توڑ پھوڑ کی گئی ہے۔ اورئی ،اناؤ، کنوج، کانپور دیہات، فتحپور اور اوریا، ایٹاوا اور چتر کوٹ میں بھی مختلف مقامات پر پولیس و ٹھیکے والوں کے درمیان جھڑپیں ہوئیں ہیں۔ مین پور کے گاؤں لال پور سگونئے میں دیہاتیوں نے دیسی شراب کے ٹھیکے میں آگ لگادی۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے دونوں مرکزی سرکار اور ریاستی حکومت سکتے میں ہیں۔ ایک طرف بگڑتا لا اینڈ آرڈر تو دوسری طرف محصول کو نقصان۔ سرکاریں اس مسئلے پر بیچ کا راستہ نکالنے میں جٹ گئی ہیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلے پر غور ہورہا ہے۔ ویسے تو یہ مسئلہ سنگین ہے لیکن بیچ کا کوئی راستہ نکالنا بہتر ہوگا تاکہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟