بھاری پولنگ ووٹروں میں بیداری کی علامت ہے


Published On 3rd February 2012
انل نریندر
پانچ ریاستوں کے لئے اسمبلی کی تشکیل کاعمل شروع ہوچکاہے۔ پنجاب، اتراکھنڈ، منی پور میں پولنگ ختم ہوچکی ہے۔تینوں ریاستوں میں پولنگ سے جہاں ہماری جمہوری نظام کو مضبوطی ملتی ہے وہی چناؤ کمیشن کو اس کااطمینان ہوگا کہ ان ریاستوں میں برائے نام تشدد کے نہ صرف چناؤ مکمل ہوئے بلکہ ان میں بھاری پولنگ بھی ہوئی۔ منی پور پولنگ کافیصدہمیشہ39 فیصد رہا یہی 80 فیصدی ووٹ پڑنا غیر معمولی بھلے نہ ہو بلکہ توجہ دینے کی بات ہے کہ کچھ انتہا پسند تنظیموں کی سرگرمی بے اثر رہی۔ جنتا نے بلٹ کے بجائے بیلٹ کوترجیح دی۔ پنجاب اور اتراکھنڈ دونوں میں پولنگ فیصد 77 اور 70 رہا۔ اب ا میدیہی ہے کہ اترپردیش میں یہی ٹرینڈ جاری رہے گا۔ اتراکھنڈ میں 2007میں 63.72 فیصد ووٹ پڑا تھا۔ عام طور پر ماناجاتا ہے کہ بھاری پولنگ کامطلب اقتدار مخالف لہر یہ بھی کہاجاتا ہے کہ وہاں کی جنتا نے تبدیلی اقتدار کے نام پر زیادہ تعداد میں ووٹ دیئے لیکن ہمارا خیال ہے کہ بھاری پولنگ ہونے سے کوئی اندازہ لگانا ٹھیک نہیں ہوتا۔ کبھی کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ حکمراں پارٹی اپنے ووٹ ڈالوا لیتی ہے پنجاب میں اس بار 70فیصدی سے زیادہ پولنگ ہوئی ہے۔ کئی سیٹوں پر تو یہ 85 فیصد تک پہنچ گئی۔ وزیراعظم اعلی پرکاش سنگھ بادل کے حلقہ لمبی میں 85فیصد جب کہ مالیرکوٹلہ میں 88 فیصد پولنگ ہوئی۔ اتنی پولنگ کاکوئی مطلب نکالنا پنجاب میں بے حد مشکل سودا ہے۔ پچھلے چار اسمبلی چناؤ کے اعداد وشمار دیکھیں تو یہ کہنا مشکل ہے کہ کس پارٹی کی سرکار مارچ میں بنے گی۔ 2007 میں گزشتہ اسمبلی چناؤ کے دوران صوبے میں 75.45 فیصدی پولنگ ہوئی تھی۔ اکالی بھاجپا محاذ اقتدار میں آیا تھا اس وقت 117 ممبری پنجاب اسمبلی میں اکالی دل کو49 اور اس کی اتحادی بھاجپا کو 19 سیٹیں ملی تھی۔ کانگریس کوتب44 سیٹوں پر ہی اکتفا کرنا پڑاتھا۔ تینوں ریاستوں میں بھاری پولنگ سے صاف ہے کہ ووٹ کی طاقت نوٹ سے زیادہ ہے۔ اس میں بھاری پولنگ کاایک مطلب یہ نکالا جاسکتا ہے کہ ووٹرو ں میں اپنے حق اورجمہوریت کے تئیں احساس بڑھا ہے وہ اپنے حق کااستعمال کرنے آگے آئے ہیں۔ عوامی مشینری کے پہیوں کو رفتار دینے میں ان کی ساجھے داری سے صحت مند جمہوریت کی بنیاد مضبوط کرے گی۔ ووٹ کی طاقت کیاہے یہ بتانے میں اناہزارے میڈیا اور اطلاعاتی مشینری کے دوسرے وسائل کا کردار کو درکنار نہیں کیا جاسکتا۔ اناہزارے کی مہم کم سے کم پولنگ کرنے میں ضرور اثر دکھارہی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ جب ووٹ کامطلب نیتا تک محدود ہوا کرتا تھا۔ سیاسی پارٹی ووٹروں کو گھر سے اس کی جی حضوری کرتے ہوئے پولنگ مرکز تک گھوڑا گاڑی رکشا کا انتظام کیا کرتے تھے۔ اور ووٹ کی پرچی ہاتھ جوڑ کر اس کے گھر کے پہنچادیا کرتے تھے۔ دونوں ہاتھ جوڑ کرکہتے تھے کہ ہمارا خیال رکھنا۔ ہماری عزت آپ کے ہاتھ میں ہے۔ لیکن اب ووٹربیدار ہوگیا ہے ووٹر نے نیتا کی بانگی کو ٹول کر فیصلہ اپنے بل پرکرنے کی جو پہل کی ہے اس کا خیرمقدم ہے کل ملاکر پولنگ میں اس بار نئی اور عجوبہ ٹرینڈ دیکھنے کو ملے ہے۔ جو ہمارے دیش کی جمہوریت کے لئے اچھا اشارہ ہیں۔
Anil Narendra, Daily Pratap, Manipur, Punjab, State Elections, Uttara Khand, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟