گلوبل وارمنگ اتفاق رائے بنانا انتہائی ضروری ہے!

فرانس کو دوہری کامیابی کے لئے مبارکباد! پہلی اسلامی اسٹیٹ کے ذریعے اتنے خطرناک آتنکی حملے کے بعد اس نے 180 ملکوں کے سربراہی مملکت ووزراء اعظم کو اپنے دیش میں چوٹی کانفرنس میں شرکت کرنے کی ہمت دکھائی جو اپنے آپ میں اسلامی اسٹیٹ کے منہ پر طمانچہ ہے۔ اوردوسری کے اس نے گلوبل وارمنگ سے نمٹنے کا راستہ تلاش کرنے کے لئے اکٹھے ہوئے۔ گلوبل وارمنگ یعنی آب و ہوا کی درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ دنیا بھر دہشت کا ماحول پیدا کررہا ہے۔ خوف یہ ہے کہ گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج جس رفتار سے بڑھ رہا ہے، اگر وہ جاری رہا تو مستقبل قریب میں زمین اور آس پاس کاپورا آب وہوا زون انسان سمیت سارے جانوروں ، پرندوں ، چرندوں کو جھلسا دے گا۔ اس میں کتنی خوفناک صورت حال پیدا ہوگی اس کاتصور کرنا بھی ڈرا دیتا ہے ابھی یہ حد صنعتی کرن دور کی شروعات کے پہلے کے درجہ حرارت 2ڈگری سلیس کو مانا گیا ہے۔ زمین اور اس کے آس پاس آب وہوا زون 5ڈگری سیلیس کی طرف بڑھ رہاہے۔ پچھلی دہائیوں کے دوران گلوبل وارمنگ کو لے کر کئی چوٹی کانفرنسیں ہوچکی ہیں۔ ریوڈی جینریو 1992، کیوٹہ 1997اور کوپن ہینگن 2009 کے اجلاسوں کے باوجود ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ملکوں کے درمیان گیرین ہاؤس گیسوں کی کٹوتی کو لے کر کوئی عام رائے نہیں بن سکی۔ 
اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک اپنی جوابدہی سے بچنا چاہتے ہیں اور وہ ترقی پذیر ملکوں سے برابری کی امید کرتے ہیں۔ ہندوستان کے وزیراعظم نریندر مودی نے ترقی یافتہ ممالک کو صاف طور پر خبردار کرتے ہوئے کہاکہ اگر وہ بھارت جیسے ترقی پذیرملکوں پر اخراج کم کرنے کا بوجھ ڈالتے ہیں تو یہ اخلاقی طور سے غلط ہوگا۔ساجھہ لیکن الگ الگ ذمے داریوں کا اصول ہمارے اجتماعی کوشش کی بنیاد ہونی چاہئے۔ انہوں نے ترقی یافتہ ملکوں سے اپیل کی ہے کہ وہ تبدیلی ہوا کے خلاف لڑائی میں زیادہ بوجھ اٹھانے کے اپنے فرض کو ادا کریں۔ عالمی درجہ حرارت کو انڈسٹریل انقلاب سے پہلے کی سطح سے دو ڈگری سلیس سے زیادہ نہ رکھنے کا نشانہ پورا نہیں ہوسکتا۔ جب تک ترقی یافتہ ممالک فراغ دلی نہیں دکھاتے۔ یہ اچھی بات ہے کہ دنیا کے زیادہ تر ممالک اپنی طرف سے کاربن اخراج میں کٹوتی کا نشانہ طے کرچکے ہیں۔90 فیصد اخراج کرنے والے سبھی ممالک اس میں شامل ہے۔
یہ مستقبل کے تئیں امید جگاتا ہے کاربن اخراج کی کٹوتی کو لے کر ترقی یافتہ دیشوں کی نظر چین، بھارت، اور برازیل وغیرہ پر لگی ہے، جس کے بارے میں ان کاکہنا ہے کہ ان تین ابھرتی معیشتوں کو دی گئی چھوٹ کی وجہ سے ہی کیوٹہ اور اوپن ہینگن کے اجلاس کامیاب نہیں ہوسکے۔ بے شک چین میں اخراج کی سطح امریکہ کے بعد سب سے زیادہ ہے۔لیکن بھارت اور برازیل ترازوں کے پلڑے پر ایک ساتھ نہیں رکھے جاسکتے۔ تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ بھارت کا اخراج چین کے مقابلے میں آدھے سے بھی کم ہے لیکن اصل اشو یہ ہے کہ گلوبل وارمنگ کی مار سے کوئی بھی دیش بچ نہیں سکتا۔ یہ خطرہ کتنا قریب ہے اسی سے اندازہ لگا یا جاسکتا ہے۔کہ 2015 ممکنہ طورپر اب تک کا سب سے گرم سال ثابت ہونے جارہا ہے۔ سمجھنے کی یہ بھی ضرورت ہے کے گلوبل وارمنگ کی سب سے بڑی مار 100 سے زیادہ غریب اور چھوٹے دیشوں پر پڑ رہی ہے۔ جب تک ترقی یافتہ دیش ان قریب اور چھوٹے ملکوں اور ترقی پذیر ملکوں کے اعتراضات اور تجاویز پر توجہ نہیں دیتے۔ پیرس کا کوئی مثبت نتیجہ نکلنے کی امید کم ہی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟