ڈیزل کا ڈی کنٹرول والا فیصلہ عوام مخالف ہے جس کے دوررس مضر اثرات ہوں گے

اقتصادی اصلاحات کے نام پر وزیر اعظم منموہن سنگھ کی یوپی اے سرکار بھارت کی غریب جنتا کی کمر توڑنے پر تل گئی ہے۔پہلے سے ہی دو وقت کی روٹی کمانے میں کسان ،مزدور، چھوٹے طبقے کے لوگوں کو جینے کے لئے پیٹ کاٹنے پر مجبور ہونا پڑ رہا ہے۔ رہی سہی کثر اس حکومت نے ڈیزل کی قیمت کو اپنے کنٹرول سے آزادکرانے کا فیصلہ کیا ہے۔ 51 پیسے فی لیٹر تو بڑھا دیا گیا ہے۔ ڈیزل کی اب ہر مہینے قیمت بڑھتی رہے گی۔ ڈیزل کی قیمت بڑھنے سے مہنگائی اور بڑھے گی۔ ہر چیز مہنگی ہوگی۔ اس فیصلے کی چوطرفہ مخالفت ہونا فطری ہے۔ چاہے وہ اپوزیشن پارٹیاں ہوں ، چاہے وہ سرکار کی حمایتی پارٹیاں ہوں سبھی کھل کر مخالفت کررہی ہیں۔ بھاجپا کا کہنا ہے یہ عوام مخالف فیصلہ ہے۔ چاہئے تو یہ تھا سرکار اس قدم کو اٹھانے سے پہلے تیل سیکٹر میں ضروری بہتری لاتی۔ ڈیزل کی قیمت بڑھانے کے لئے وقت بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ لوگ پہلے ہی مہنگائی سے لڑ رہے ہیں۔ مارکسوادی سکریٹری جنرل پرکاش کرات نے کہا کہ ڈیزل کے دام ڈی کنٹرول کرنے سے عام آدمی پر فاضل بوجھ پڑے گا جو پہلے ہی روزمرہ کی چیزوں کے دام بڑھنے سے مشکل میں ہے۔ مارکسوادی پارٹی کے سکریٹری جنرل ڈی راجہ نے کہا سرکار کی اس دلیل کو قبول نہیں کیا جاسکتا کے مالی خسارے کو کم کرنے کے لئے یہ فیصلہ لیا گیا ہے۔ کیونکہ جو بھی خسارہ ہے وہ اس سرکار کی معیشت کی بدانتظامی کے سبب ہوا ہے۔یوپی اے ۔II کی سنکٹ موچک بنی رہی بہوجن سماج پارٹی اور سماجوادی پارٹی جیسی پارٹیاں بھی ڈیزل کی قیمتوں کو بازار کے حوالے کرنے کے سرکارکے فیصلے کی مخالفت کررہی ہیں۔ مایاوتی نے کہا ڈیزل اور رسوئی گیس مہنگا کرکے سرکار جنتا پر بوجھ بڑھارہی ہے۔ سرکار نے نہ صرف ڈیزل کی قیمت بڑھانے کا اختیار ڈیزل کمپنیوں کو دے دیا ہے بلکہ وقت بوقت انہیں ڈیزل کی قیمتیں بڑھانے کی پوری چھوٹ بھی دے دی ہے۔ نارتھ ایسٹ کی تین ریاستوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کو دیکھتے ہوئے ایسے فیصلے کی امید نہیں تھی لیکن سرکار نے چناؤ کمیشن کے سامنے یہ دلیل پیش کی اور اس کی منظوری حاصل کرلی۔ یہ فیصلہ چناؤ قواعد نافذ ہونے سے پہلے ہی لیا جاچکا تھا اور ان کا اعلان اب کیا جارہاہے۔ سوال یہ ہے کہ سرکار نے اس فیصلے میں جلد بازی کیوں کی ہے؟ اس فیصلے کو لاگو کرنے کے پیچھے سرکار کی دلیل بھلے ہی کچھ بھی رہی ہو لیکن سچائی یہ ہے یہ فیصلہ سرکار کی دوررس سیاسی نظریہ کا نتیجہ ہے۔ 
شمال مشرق کی تین ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کے علاوہ 2014ء میں عام چناؤ بھی ہونے ہیں جس کے چلتے سرکار کو اگلے مہینے دیش میں ہونے والے عام بجٹ کو عوامی پسندیدہ بجٹ بنانا ہے۔ عام بجٹ میں سرکار کوئی ایسا اعلان نہیں کرنا چاہتی تھی جس سے ووٹر کانگریس سے دور ہوں اس لئے اس نے بجٹ سے پہلے ہی ڈیزل کو ڈی کنٹرول کرنے کا بڑا فیصلہ کیا ہے۔ڈیزل کے دام بڑھنے سے عام آدمی کے استعمال کی تقریباً سبھی چیزیں مہنگی ہوجائیں گی۔ مہنگائی بڑھے گی تو ریزرو بینک پر سود بھی بڑھے گا۔ جس سے قرض مہنگا ہوگا اور صنعتوں میں پیدا وار گھٹے گی۔ جی ڈی پی میں اہم اشتراک رکھنے والا زرعی سیکٹر بھی بری طرح متاثر ہوگا۔ کسانوں کو سینچائی و جتائی کے لئے ڈیزل مہنگا ملے گا تو اس کی آمدنی متاثر ہوگی اور وہ قرض لینے پر مجبور ہوں گے۔ قرض ادا نہ کرنے پر کسانوں میں خودکشی کرنے کا رجحان بڑھنے کا خطرہ ہے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ سرکار ڈیزل کی قیمتیں ڈی کنٹرول سے پہلے ایک ایسا خاکہ تیار کرتی جس میں غذا اور دیگر اشیائے ضروریہ کے ڈھلائی پر لگنے والے بھاڑے پر ڈیزل قیمت میں اضافے کا اثر نہ پڑتا۔ ساتھ ہی کسانوں کو بھی بغیر روک ٹوک کے سستا ڈیزل ملتا رہتا۔ آنے والے دنوں میں اس فیصلے کا مین ردعمل دیکھنے کو ملے گا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!