بقول اے راجہ پردھان منتری اورچدمبرم کو سب معلوم تھا


Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily
Published On 28th July 2011
انل نریندر
تقریباً ایک ہفتے بعد پارلیمنٹ کا مانسون اجلاس شروع ہونے والا ہے۔ پہلے سے ہی کئی طرف سے گھری کانگریس پارٹی اور اس کے وزیر اعظم منموہن سنگھ اور گھرنے والے ہیں ۔ اپوزیشن میں پہلے سے ہی کئی مسئلوں پر سرکار کے خلاف گھیرا بندی تیزی کردی ہے۔ ایسے میں اے راجہ کا سی بی آئی کی غیر ملکی عدالت میں وزیر اعظم اور وزیر داخلہ پر براہ راست الزام لگانے سے پارٹی اور سرکار دونوں کی خاصی کھنچائی ہونے کا امکان ہے۔ ٹو جی اسپیکٹرم گھوٹالہ معاملے میں بنیادی ملزم اور سابق وزیر اے راجہ پر کارروائی میں تاخیرکو لیکر پہلے ہی سپریم کورٹ کی پھٹکار جھیل چکے وزیر اعظم منموہن سنگھ کا نام اب اس تنازعے میں گھسیٹے جانے سے یوپی اے سرکار میں کھلبلی مچنا فطری ہے۔ عدالت میں اپنے بچاؤ میں دلیل دیتے ہوئے راجہ نے کہہ دیاکہ ٹو جی اسپیکٹرم کے تمام اہم فیصلے انہوں نے اکیلے نہیں کئے۔ ان میں وزیر اعظم منموہن سنگھ اور اس وقت کے وزیر مالیات پی چدمبرم کی رضامندی رہی تھی۔ قابل ذکر ہے کہ عدالت میں ٹوجی اسپیکٹرم معاملے میں سرکاری وکیل اور دفاع کے وکیلوں کی دلیلوں کا دور چل رہا ہے۔ وکیل استغاثہ کی دلیل سن لی گئی ہیں۔ اب بچاؤ فریق کو اپنی دلیل رکھنے کا موقع ملا ہے۔ اے راجہ کی طرف سے اس کی وکیل نے ایک تحریری بیان پڑھا تھا۔ اس میں کہا گیا تھا کہ انہوں نے ٹو جی اسپیکٹرم لائسنسوں کی تقسیم میں کوئی منمانی نہیں کی۔ بھاجپا لیڈر شپ والی این ڈی اے حکومت کے دور سے وزارت میں جو پالیسی چلی آرہی تھی انہوں نے بھی اپنے عہد میں اس کی تعمیل کی ہے۔ راجہ کا کہنا تھا کہ اگر وزارت میں چلی آرہی ہے اس پالیسی کی تعمیل کرکے انہوں نے کوئی گناہ کیا ہے تو اس سے پہلے ٹیلی کمیونی کیشن وزیر بھی اتنے ہی قصوروار ہیں اور انہیں بھی ان کے ساتھ تہاڑ میں ہونا چاہئے۔ راجہ نے یہ کہہ دیا ہے کہ یہ بات وزیر اعظم کی جانکاری میں تھی کہ سوان اور یونی ٹیک کمپنیوں کی کافی حصے داری ملٹی نیشنل کمپنیوں کے پاس چلی گئی تھی۔ ان کمپنیوں کو ٹو جی اسپیکٹرم کے لائسنس جاری کئے گئے تھے اس مسئلے پر وزیر مالیات پی چدمبرم نے کوئی اعتراض نہیں کیا تھا۔ ایسے میں ان پر یہ الزام صحیح نہیں ہے کہ انہوں نے غیر ملکی کمپنیوں کے معاملے کی جانکاری سرکار سے چھپائی تھی۔
راجہ کے عدالتی بیان سے فکر مند حکومت نے اپنے حکمت عملی ساز وزرا کی فوج ’’ڈمیج کنٹرول‘‘ کے لئے لگا دی ہے۔ کپل سبل سے لیکر پی چدمبرم، پون بنسل او رنارائن سوامی تک سبھی راجہ کے بیانوں کو ایک ملزم کا بیان ثابت کر اپوزیشن کے حملوں کا جواب دینے میں لگ گئے ہیں۔ یوپی ، بہار اور کرناٹک میں اجاگر ہوئے تازہ گھوٹالوں کے پیش نظر بھاجپا سمیت سبھی اپوزیشن پارٹیوں کو آئینہ دکھانے کی حکمت عملی پر عمل شروع ہوچکا ہے۔ یہ اپنی جگہ ٹھیک ہوسکتا ہے لیکن اس سے راجہ کے الزامات دھل نہیں جاتے۔ اس لئے ایک طرف کپل سبل نے راجہ کے بیانات کو ایک ملزم کا بیان ثابت کرنے کی کوشش کی تو چدمبرم نے بھاجپا پر یہ الزام مڑ دیا کہ دھماکے کے الزامات میں شامل دکشن پنتھی کٹر پنتھیوں کے خلاف کارروائی کی وجہ سے بھاجپا بوکھلائی ہوئی ہے۔ اور ساری بوکھلاہٹ میں وہ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کے استعفوں کی مانگ کررہی ہے۔ مگر اے راجہ کے بیان کے بعد سرکار کے سب سے ایماندار کہے جانے والے وزرا کی ساکھ پر آنچ آگئی ہے اور وہ کیسے ثابت کریں کہ واقعی منموہن سنگھ اور چدمبرم کو ٹو جی گھوٹالے کی جانکاری نہیں تھی؟ وزیر اعظم منموہن سنگھ اور ان کے سپہ سالاروں کو یہ بھولنا نہیں چاہئے کہ انہوں نے پہلے اسی اے راجہ کا بچاؤ کیا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ راجہ نے کوئی غلط کام نہیں کیا۔ اب اس موقف سے کیسے پلٹیں گے؟ کسی بھی گھوٹالے کا ملزم اپنے بیان میں جو کچھ کہتا ہے اس پر پوری طرح بھروسہ کرنا مشکل ہوتا ہے لیکن یہ بھی مان کر نہیں چلا جاسکتا کہ ہر معاملے میں اس کی دلیل مسترد کردینی چاہئے۔ ٹوجی اسپیکٹرم گھوٹالے کے ملزم جو یہ الزام لگا رہے ہیں کہ اسپیکٹرم پانے والی کمپنیوں کے ذریعے شیئر بیچے جانے کے مسئلے پر وزیر اعظم منموہن سنگھ اور اس وقت کے وزیر مالیات پی چدمبرم کے ساتھ تبادل�ۂ خیال کیا گیا تھا، یہ ایک سنگین الزام ہے۔ راجہ کی مانیں تو ٹو جی اسپیکٹرم پانے والی کمپنیوں کے ذریعے اپنی حصے داری غیر ملکی کمپنیوں کو بیچنے کے فیصلے کو مرکزی وزیر مالیات نے وزیر اعظم کی موجودگی میں منظوری دی تھی۔ حکمراں فریق راجہ کے اس الزام کو ایک ملزم کا بیان بتا کر پلہ جھاڑ سکتا ہے لیکن محض اس دعوے سے شبہ کے بادل چھٹنے والے نہیں ہیں ۔ اس لئے اور بھی نہیں کیونکہ یہ بات پہلے بھی سامنے آچکی ہے کہ راجہ کے فیصلوں پر وزیر اعظم کے ساتھ ساتھ چدمبرم نے بھی اعتراض کیا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ اس سلسلے میں ان دونوں نے خط بھی لکھے تھے اور اس کے ثبوت موجود ہیں۔ عام جنتا تو یہ جاننا چاہے گی کہ آخر راجہ پر اس اعتراض کا کوئی اثر کیوں نہیں ہوا اور انہیں منمانی کرنے سے کیوں نہیں روکا جاسکا؟ اے راجہ کی جانب سے لگائے گئے الزامات کی جانچ کی کئی بنیاد ہو سکتی ہیں ۔ سب سے اہم تو یہ ہے کہ راجہ کی گرفتاری میں اتنی دیر کیوں لگی؟ گرفتاری سے پہلے تک یہ ہی وزیر اعظم اور اس وقت کے وزیر داخلہ پی چدمبرم ان کا ہر طرح سے بچاؤ کرنے میں لگے ہوئے تھے، خود وزیر اعظم نے اسپیکٹرم الاٹمنٹ میں کسی طرح کی گڑ بڑی سے انکار کیا تھا۔ اتنا ہی نہیں دیدہ دلیری اور منمانے طریقے سے کئے گئے اسپیکٹرم الاٹمنٹ کے چلتے ہوئے نقصان کو صفر بتایا گیا تھا۔ اس کے علاوہ یہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں کہ اسپیکٹرم حاصل کرنے والی کمپنیوں نے کس طرح اپنی حصے داری بیچ کر اربوں روپے کمائے اور یہ تو جگ ظاہر ہے کہ اسپیکٹرم الاٹمنٹ کے وقت سارے قاعدے قانون کو بالائے طاق رکھ دیا گیا۔ کیا حکومت کے سربراہ ہمیں یہ بتانے کی کوشش کررہے ہیں کہ ان کے منع کرنے پر بھی ان کے ایک وزیر نے منمانی کی اور ان کے احکامات کی کھلی خلاف ورزی کی؟ہم اتحاد کی مجبوریوں کو ایک حد تک سمجھ سکتے ہیں لیکن اپنی سمجھ سے باہر ہے کہ راجہ اپنے الزامات کو ثابت کرنے کیلئے عدالت میں کیسے ثبوت دیتے ہیں اور عدالت اس پر کیا رخ اپناتی ہے؟ ابھی تو اے راجہ نے یہ الزام لگائے ہیں آگے دیکھتے جائیے کون کون کیا الزام لگاتا ہے۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟