آخرکار یدی یروپا کو جانا ہی پڑا


Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily
Published On 30th July 2011
انل نریندر
آخر کار بھاجپا ہائی کمان نے ہمت اور ہوشیاری دکھائی اور کرناٹک کے وزیر اعلی بی ۔ایس یدی یروپا کوہٹانے کا فیصلہ کرہی لیا۔ حالانکہ انہوں نے اپنی کرسی بچانے کیلئے سب طرح کے ہتھکنڈے اپنائے لیکن بھاجپا اعلی کمان کے آگے ان کی ایک نہ چلی۔ بھاجپا اعلی کمان نے بدھوار دیر رات ہی انہیں بتا دیا تھا کہ پارٹی چاہتی ہے کہ وہ اپنا عہدہ چھوڑ دیں ۔ اس کے بعد جمعرات کی صبح پارلیمانی پارٹی کی میٹنگ میں انہیں وزیراعلی کے عہدے سے ہٹانے کے بارے میں کئے گئے فیصلے پر مہر لگادی گئی۔ پارٹی نے یدی یورپا کو ہٹانے کے بارے میں تب ہی ذہن بنا لیا تھا جب لوک آیکت جسٹس سنتوش ہیگڑے کی رپورٹ کے کچھ حصے افشا ہو گئے تھے۔ لیکن پارٹی چاہتی تھی کہ پہلے لوک آیکت اپنی رپورٹ باقاعدہ طور پر حکومت کو سونپ دیں۔ رپورٹ سپرد کرنے کے فوراً بعد ہی یدی یورپا کو دہلی طلب کیا گیا۔ انہیں کرسی چھوڑنے کو کہا گیا۔ یدی یورپا بغیر استعفیٰ دئے بنگلورو پہنچ گئے اور انہوں نے اپنی طاقت آزمائی کے لئے ممبران اسمبلی و وزرا کی میٹنگ بلائی ، جس میں ان کے ہاتھ مایوسی لگی۔ ان کی طلب کردہ میٹنگ میں کل13 ممبران اسمبلی ہی پہنچے تھے۔ دراصل بھاجپا ہائی کمان یدی یورپا کی چال کو سمجھ گیا تھا۔ ادھریدی یورپا سے ناراض گڈکری نے ممبران اسمبلی کو ان سے دوری بنانے کیلئے فون کردیا تھا۔ وزیروں کو صاف کہا گیا کہ اگر انہوں نے یدی یورپا کا اب بھی ساتھ دیا تو انہیں اگلی کیبنٹ میں نہیں لیا جائے گا۔ ہائی کمان نے ایم وینکیانائیڈو کو آپریشن یدی یورپا کیلئے بنگلورو روانہ کردیا۔ پارٹی کے سخت رویئے کو دیکھتے ہوئے یدی یورپا نے عہدہ چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا اور کہا کہ وہ 31 جولائی کو باقاعدہ استعفیٰ نامہ دیں گے۔ اکیونکہ 31 جولائی کو شکل پکش شروع ہورہا ہے۔ 30 جولائی کو اماوسیہ ہے اور جیوتشیوں نے انہیں شبھ مہورت میں استعفیٰ دینے کی صلاح دی ہے۔
یدی یورپا نے اپنے جانشین کے طور پر ممبر پارلیمنٹ سدانند گوڑا کا نام تجویز کیا ہے لیکن پارٹی جمعہ کو ہوئی ودھان منڈل کی میٹنگ میں نیتا کا فیصلہ کرنے والی تھی۔ تازہ اطلاع کے مطابق گوڑا کے نام پر یدی یورپا کے اختلاف کی وجہ سے یہ میٹنگ ٹل گئی ہے۔ دہلی سے ارون جیٹلی اور راجناتھ سنگھ کو مشاہد بنا کر بھیجا گیا۔ وزیر اعلی کے دعویداروں میں ایشورپا ، بی ایس آچاریہ، سریش کمار اور انند کمار بھی دعویدار ہیں۔ یدی یورپا لنگوت ہیں۔کرناٹک کی سیاست میںیہطبقہ کا فیصلہ کن کردار نبھاتا ہے۔اپنی اس ذات کی طاقت پر ہی یدی یورپا ہائی کمان کو بلیک میل کررہے تھے۔ ریاست کی کل آبادی میں لنگائیت قریب27 فیصد ہے جبکہ اس کے بعد دوسرے مقام پر ووک لنگ ہیں جو17 فیصد ہیں۔ سابق وزیر اعلی ایچ ڈی دیوگوڑا اسی طبقے سے آتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں یدی یورپالنگوت فرقے کے بڑے نیتا کے طور پر ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ کرناٹک بھاجپا اسمبلی پارٹی میں بھی 35 سے زیادہ ممبران اسمبلی اسی طبقے ہیں اور ممبران کے بلبوتے پر ہی اسمبلی چناؤ ہوں یا لوک سبھا چناؤ یا پنچایت چناؤ لنگوت کارڈ کھیل کر یدی یورپا بھاجپا کو چناؤ جیتانے کے ساتھ ساتھ اپنی جڑیں بھی جماتے رہے ہیں۔ بھاجپا کو جانشین چنتے وقت کرناٹک کے ذات پات کے تجزیوں کو ضرور ذہن میں رکھنا ہوگا۔ جہاں تک ممکن ہو یدی یورپا کا جانشین بھی لنگوت فرقے سے ہی ہوگا۔
کرناٹک کی سیاست میں ایک بہت بڑا سیکٹر ریڈی بندھو بھی ہیں۔ ان کی کہانی کسی فلمی سے کم نہیں لگتی۔ پولیس کانسٹیبل کے بیٹے جن کے پاس سائیکل خریدنے کی ہمت تھی ان کے پاس آج اپنا ہیلی کاپٹر ہے۔ سیاسی پکڑ ایسی کے وزیر اعلی یدی یورپا اور مرکزی لیڈر شپ بھی انہیں کنارے کرنے کی ہمت نہیں جٹا پارہی ہے۔ ان پر لوہے اور ابرق کے ناجائز کھدائی کرانے کے سنگین الزام لگے ہوئے ہیں۔ وہ قریب1500 کروڑ کے معدنیاتی کاروباری ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق سال 2002 ء میں کھدائی اور اس کے درآمدات کے کاروبار میں اترنے کے بعد ان کی املاک اربوں میں ہے۔ اوبلا پورم مائننگ کمپنی کا مالکانہ حق کرناٹک کے وزیر سیاحت بی جناردن ریڈی کے پاس ہے تو یدی یورپا سرکار میں بڑے بھائی جی کروناکرن ریڈی وزیر محصول ہیں جبکہ چھوٹے بھائی سمیشور بلاری سے اسمبلی کے ممبر ہیں۔ سال2009 ء میں بھی ریڈی بندھوؤں نے یدی یورپا کے خلاف اس لئے بغاوت کردی تھی کہ انہیں بلاری میں اپنے من پسند افسران کی تقرری کا اختیار نہیں دیا گیا تھا۔ تب بھی سشما سوراج کی مداخلت سے معاملہ سلجھ گیا تھا۔ بھاجپا کے سینئر لیڈر کہتے ہیں کہ بلاری میں کانگریس کے گڑ کو توڑنے کے لئے بھاجپا کو ان کا سہارا لینا پڑا۔ ریڈی بندھوؤں کا سیاسی عروج بلاری پارلیمنٹ سیٹ سے پہلی بار کانگریس صدر سونیا گاندھی کے چناؤ لڑنے کے دوران ہوا تھا۔ بھاجپا نے سونیا کے خلاف سشما سوراج کو میدان میں اتارا تھا تب ریڈی بندھوؤں نے سشما کو کاچی ماں کا درجہ دیتے ہوئے ان کی جیت کے لئے ہر ممکن کوشش کی تھی۔ لیکن جیت سونیا گاندھی کی ہوئی۔ ریڈی بندھوؤں کے سشما سوراج سے رشتوں کو لیکر اکثر سوال اٹھتے رہے ہیں لیکن حال ہی میں سشما نے دو ٹوک الفاظ میں یہ کہہ دیا کہ ریڈی بندھوؤں سے ان کا کوئی کاروباری مفاد نہیں ہے۔ یدی یورپا کے جانشین کے چننے کے وقت بھاجپا اعلی کمان کو ریڈی بندھوؤں سے کیا سیاست اپنانی ہے اس پر بھی سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا ۔ کیونکہ یہ سرکار بنانے اور اکھاڑنے میں اہم کردار نبھاتے آئے ہیں۔
Tags: Anil Narendra, Arun Jaitli, BJP, Daily Pratap, Hegde, Karnataka, Lokayukta, Rajnath Singh, Sushma Swaraj, Vir Arjun, Yadyurappa

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟