معدنیات پر ٹیکس لگانے کا بل آئین سازیہ کا حق!

سپریم کورٹ نے معدنیاتی اختیارات سے وابسطہ 45 سالہ تنازعہ کو ختم کرتے ہوئے تاریخی فیصلے میں کہا کہ معدنیات پر واجب رائلٹی کوئی ٹیکس نہیں ہے ۔آئین کے تحت ریاستوں کے پاس معدنیات اور معدنی زمین پر ٹیکس لگانے کا آئین سازی اختیار ہے ۔چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی والی 9 نفری آئینی بنچ نے 8-1 کی اکثریت سے یہ فیصلہ سنا دیا ۔اس سے جھارکھنڈ اور اڈیشہ جیسے معدنی پیدا ریاستوں کو راحت ملے گی ۔ان ریاستوں کو مرکز کی جانب سے معدنیات اور معدنی وسائل پر اب تک لگائے گئے ہزاروں کروڑ روپے کے ٹیکسوں کی وصولی پر کورٹ سے فیصلہ کرنے کی درخواست کی تھی ۔مرکز کی جانب سے پیش ہوئے سولی سیٹر جنرل تشار مہتا نے حالانکہ دلیلوں کی مخالفت کی ۔آئینی بنچ نے مانا کہ ریاستوں کو معدنیاتی حقوق پر ٹیکس لگانے کا اختیار ہے اور خان اور معدنیاتی ڈولپمنٹ و ریگولیشن ایکٹ 1957 ریاست کو ایسے اختیارات کو محدود نہیں کرتا ۔سی جے آئی کے علاوہ جسٹس ہری کیش رائے ، جسٹس ابھے ایس اوکا جے وی پاردیوالہ ،جسٹس منسوج ،جسٹس اجول ،جسٹس اجول ہوئیاں ،جسٹس ستیش چندر شرما ،جسٹس آسٹن جارج مسیح نے اکثریت کا فیصلہ دیا وہیں جسٹس ناگ رتنا نے اپنے فیصلے میں کہا کہ رائلٹی ٹیکس یا وصولی نیچرل سامان پر عائد ٹیکس کی ہوتی ہے اور مرکز کے پاس اسے لگانے کا اختیار ہے ۔مرکز اور ریاستوں کے بیچ گھروں کے بٹوارے کو لیکر کئی بار تنازعہ کھڑا ہو چکا ہے ۔مرکز پر ٹیکس سسٹم جی ایس ٹی لاگو ہونے کے بعد بھی کچھ چیزوں پر ٹیکسوں اور ضمنی ٹیکسوں کے بٹوارے کو لیکر سوال اٹھتے رہتے ہیں ۔معدنیات پر بالادستی کا سوال ان میں سے ایک ہے ۔مرکزی سرکار نے معدنیات پر ٹیکس اور سب ٹیکس لگانا شروع کیا تو کچھ کمپنیوں اور ریاستی حکومتوں نے اس پر سوال اٹھائے آخر کار سپریم کورٹ نے اب صاف کر دیا ہے کہ معدنیات پر اسٹیٹ گورنمنٹ کا حق ہوتا ہے وہ ان کا پٹہ دینے کے لئے آزاد ہیں ۔اس لئے کئے گئے معاہدے کے عوض میں جو ٹیکس وصول کرتی ہیں اسے ٹیکس نہیں کہا جاسکتا وہ رائلٹی کے زمرے میں آتا ہے ۔رائلٹی کو ٹیکس نہیں کہا جاسکتا ۔اس فیصلے سے خاص کر اڈیشہ اور جھارکھنڈ کو بڑی راحت ملی ہے ۔دراصل یہ معاملہ اس لئے الجھا ہوا تھا کہ آئین میں مرکز کو کانوں کے الاٹمنٹ سے متعلق حدیں طے کرنے کا حق مرکزی سرکار کو دیاگیا ہے مگر زمین ،عمارت وغیرہ پر ٹیکس لگانے کا حق ریاستی سرکاروں کو ہے ۔اس لئے مرکزی سرکار معدنیات پر ٹیکس لگانے لگی تھی ۔اب سپریم کورٹ نے صاف کر دیا ہے کہ معدنیات ریاستی سرکار کی پراپرٹی اس لئے وہ اس کے پٹے کی قیمت طے کر سکتی ہے اگر معدنیات پر بھی مرکزی سرکار ٹیکس وصولنے لگے گی تو ریاستوں کو اپنی ترقیاتی اسکیموں کے لئے پیسہ اکٹھا کرنا مشکل ہو جائے گا ۔سرکاریں سبھی اخراجات و تعین کی ذمہ داری نبھا سکتی ہیں ۔ریاستیں اور مرکزی سرکار کے درمیان کئی بار کھینچ تان کے حالات پیدا ہوتے ہیں خاص کر جن ریاستوں میں اپوزیشن پارٹیوں کی سرکار ہوتی ہے انہیں مرکز کی پالیسیوں یا اقتصادی مدد کو لے کر تعاون سے بھرپور رویہ اپنانا چاہے جیسی شکایتیں عام ہیں ۔اڈیشہ اور جھارکھنڈ معدنی پراپرٹی ریاست کی ہے ۔جن کی مالی حالت اچھی نہیں رہی ہے اس لئے عدالت کا یہ فیصلہ ان کی ترقی میں اہم ترین ثابت ہو سکتا ہے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟