ہٹ اینڈ رن قانون کی شدید مخالفت

ڈرائیوروں نے ہٹ اینڈ رن قانون کے خلاف ہنگامہ آرائی کی، مختلف مقامات پر سڑکیں بلاک کرکے ہڑتال شروع کردی۔ ٹرک، ٹیکسی اور بس آپریٹرز کی تنظیموں نے ہٹ اینڈ رن کیسز میں سزا کی نئی دفعات کے خلاف ملک بھر میں ہڑتال کی تھی۔ حال ہی میں پارلیمنٹ میں پیش کیے گئے انڈین جسٹس کوڈ کے تحت فوجداری مقدمات میں سزا کی نئی دفعات کی گئی ہیں۔ نئے قانون کے تحت ہٹ اینڈ رن کیسز میں ڈرائیوروں کے لیے دس سال قید اور سات لاکھ روپے جرمانے کی گنجائش ہے۔ اب تک اگر کوئی ٹرک یا ڈمپر سے کچل کر مر جاتا ہے تو اس پر لاپرواہی سے گاڑی چلانے کا الزام عائد کیا جاتا تھا اور ڈرائیور کو ضمانت مل جاتی تھی۔ اگرچہ اس قانون کے تحت دو سال قید کی سزا ہے لیکن اب نیا قانون کافی سخت ہے۔ ڈرائیور سوچ رہے ہیں کہ کیا قانون کے نفاذ کے بعد ان کے لیے گاڑی چلانا مشکل ہو جائے گا، کیونکہ دس سال قید اور سات لاکھ روپے جرمانے کی سزا کافی بھاری ہے۔ ڈرائیوروں کا کہنا تھا کہ ہمیں بمشکل 15 سے 20 ہزار روپے تنخواہ ملتی ہے۔ جرمانے کے 7 لاکھ روپے کہاں سے لائیں گے؟ ان کا کہنا تھا کہ اول تو انہیں اتنا بھاری جرمانہ ادا کرنے کے لیے پیسے نہیں ملتے، دوسرا انہیں نئے قانون سے سخت ہراساں کیے جانے کا خدشہ ہے۔ دس سال قید کی سزا بہت زیادہ ہے۔ ڈرائیوروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ حادثے کے بعد انہیں موقع پر بھیڑ کے غصے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ غلطی کس کی ہے، ہجوم ٹرک اور بس ڈرائیوروں کو ذمہ دار ٹھہراتا ہے اور ان پر حملہ کرتا ہے۔ نہیں، ہمیں موب لنچنگ سے بچنے کے لیے گاڑی چھوڑ کر موقع سے بھاگنا پڑے گا۔ اگر وہ نہ بھاگے تو ہجوم ہمیں مار مار کر موقع پر ہی مار ڈالتا ہے۔ کیا حکومت اس بات کی ضمانت دیتی ہے کہ وہ کسی حادثے کی صورت میں بھیڑ کو کنٹرول کرے گی؟ ڈرائیوروں کا کہنا ہے کہ پولیس اور سرکاری محکمے کہتے ہیں کہ ڈرائیور حادثات کے بعد بھاگ جاتے ہیں۔ بس کال کرکے یہ معلومات دیں۔ ڈرائیوروں کا کہنا ہے کہ اگر وہ اسی جگہ پر رہیں گے تو اس سے وہ ہجومی تشدد سے بچ جائیں گے؟ آل انڈیا موٹر ٹرانسپورٹ کانگریس (ناتھ زون) کے نائب صدر جسپال سنگھ کہتے ہیں، کوئی بھی جان بوجھ کر حادثہ نہیں کرتا ہے۔ سرکاری محکموں کا کہنا ہے کہ حادثے ہونے پر ڈرائیور فون نہیں کرتے۔ لیکن ہمیں نہیں لگتا کہ وہ فون نہیں کرتا۔ آخر سڑکوں پر اتنے کیمرے اور ٹول بوتھ ہیں، ان کی مدد کیوں نہیں لی جاتی؟ سڑکوں پر گڑھے ہیں اور لائٹس نہیں ہیں اس طرف توجہ کیوں نہیں دی جاتی؟ ہندوستان میں زیادہ تر ڈرائیوروں کو مارا جاتا ہے۔ کئی بار ڈرائیوروں کو مارا پیٹا گیا ہے۔ انہیں ان کے سامان سمیت زندہ جلا دیا جاتا ہے لیکن ایسا کرنے والوں کے خلاف کوئی مقدمہ نہیں ہوتا۔ کسانوں کو تین کالے قوانین کو ہٹانے میں ایک سال کا عرصہ لگا اور اس میں 300 سے زائد کسان شہید ہوئے لیکن ان ٹرک ڈرائیوروں نے دو دن میں حکومت کو بیک فٹ پر لا کھڑا کیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس انتخابی سال میں حکومت کو اتنی بڑی ہڑتال کا سامنا ہے اور پھر 22 جنوری کو ایودھیا میں رام للا کے تقدس کا پروگرام بھی ہے۔ ان کی وجہ سے حکومت نے دو دن کے اندر اپنے اقدامات واپس لے لیے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ اتنا سنگین قانون بنانے سے پہلے کسی بھی متعلقہ فریق سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی۔ یہ قانون عجلت میں اس وقت منظور کیا گیا جب اپوزیشن کے 150 ارکان پارلیمنٹ سے باہر تھے۔ ابھی تک قانون واپس نہیں لیا گیا، صرف اتنا کہا گیا ہے کہ اس پر فی الحال عمل نہیں ہوگا۔ ڈرائیوروں کے لیے قانون منسوخ ہونا چاہیے، ملتوی نہیں ہونا چاہیے۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟