آکسیجن سلینڈروں کی کمی اور کالا بازاری!

دیش کے کچھ حصوں میں میڈیکل آکسیجن کی کمی ہونے کے درمیان دہلی کے وزیر صحت ستندر جین نے کہا کہ دہلی کے اسپتالوں میں آکسیجن دستیاب ہے اور سپلائی بہتر کرنے کے لئے آکسیجن سپلائی کرنے والے راجیوں سے بات چیت جاری ہے انہوں نے کہا کہ قومی راجدھانی میں وائرس انفیکشن کی کمی ہوئی ہے اس میں اگلے دو ہفتہ میں اور کمی کی امید ہے ۔جین کا کہنا ہے دہلی کے اسپتالوں میں آکسیجن کی کوئی کمی نہیں ہے میں نے جائزہ لیا ہے لیکن میڈیا رپورٹ کے مطابق مانگ کے مطابق آکسیجن سلینڈروں کی کمی سپلائی میں رکاوٹ بنی ہے اب تو اس میں بھی جم کر کالابازاری ہو رہی ہے ۔چھ سات ہزار روپئے والا سلینڈر بیس ہزار روپئے میں فروخت ہو رہا ہے ۔جمع خوری اور کالا بازاری کے چلتے سلینڈروں کی قلت بڑھ گئی ہے ۔کولکاتہ میں کالابازاری کے علاوہ ایک وجہ یہ بھی سامنے آئی ہے ڈرے ہوئے لوگوں نے گھروں میں آکسیجن جمع کرنا شروع کر دیا ہے جس وجہ سے وہاں سپلائی کا سلسلہ چرمرا گیا ہے ۔ڈیلروں نے فائدہ اٹھا کر ایک فرضی کمی کی حالت پیدا کر دی ہے اورکالابازری تیز کر دی ہے پہلے گھر میں موجود مریضوں کے لئے آکسیجن سلینڈر آسانی سے سستے اور یومیہ کرائے پر ملتے تھے لیکن اب انہیں تین گنا قیمت پر خریدنا پڑ رہا ہے ۔بنگال کی بات کریں تو سپلائی چین بگڑنے سے ریاست کی سرکاری اسپتالوں پر بھی اثر پڑا ہے ۔اور پرائیویٹ اسپتالوں میں مہنگے علاج سے عام آدمی کا بجٹ بگڑ رہا ہے ۔اور بینٹی لیٹر پر علاج کے لئے 8سے 18ہزارروپئے تک کا بجت طے کیا ہے ۔موجودہ وقت میں شدیدبیمار مریضوں پر تین ہزار روپئے فی لیٹر آکسیجن لگ رہی ہے ۔ایسے ہی اتر پردیش میں 3500روپئے خرچ آرہا ہے جبکہ پرائیویٹ اسپتال میں یہی خرچ سات ہزار روپئے تک پہونچ رہا ہے سرکاری اسپتالوں کی طرح اسپتالوں میں ریٹ معاہد ہ نہیں ہے ایسے میں آکسیجن کی مانگ بڑھنے پر بڑھے داموں پر آکسیجن خردینی پڑ رہی ہے ۔اس سے مریضوں کو علاج کے لئے فاضل رقم خرچ کرنی پڑرہی ہے ۔انتظامیہ سے طے شرعیں پوری طرح عمل نہیں ہو پارہی ہیں۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟