دھار اور مونگیر کے غیر قانونی ہتھیاروں سے بڑے ہیں جرائم

راجدھانی میں تیزی سے بڑھتے جرائم کے گراف کو دیکھ کر گھبراہٹ ہونا فطری ہی ہے۔ پچھلے سال کے مقابلے اس سال راجدھانی میں جرائم 100 فیصدی سے زیادہ بڑھے ہیں۔ تیزی سے بڑھتے جرائم کے پیچھے غیر قانونی ہتھیاروں کی آسانی سے دستیابی بھی ایک بڑی وجہ ہے۔ دھر پکڑ والے ہتھیاروں کی بڑھتی تعداد بھی اس طرف اشارہ کرتی ہے۔ چھوٹے بدمعاشوں سے لیکر منظم ڈھنگ سے واردات انجام دینے والے ان کا بخوبی استعمال کررہے ہیں۔ بہار کے مونگیر اور مدھیہ پردیش کے دھار علاقے سے سپلائر راجدھانی دہلی میں بیحد کم داموں پر مانگ پر یہ ہتھیار سپلائی کررہے ہیں۔ جون 2014ء میں تو پولیس نے میڈ اِن مونگیر اے ۔ کے 47 بندوق تک پکڑ لی تھی۔ پولیس کے ایک افسر نے بتایا کہ طمنچے (کٹا) کا چلن اب کافی پرانا ہوگیا ہے۔ بدمعاش طمنچہ کے بجائے میگزین والی دیسی پستول کو ترجیح دے رہے ہیں۔ جہاں تک کوالٹی کی بات ہے تو مونگیر اور دھار میں بنے ہتھیار غیر ملکی پستول کو ٹکر دے رہے ہیں۔ دہلی این سی آر کے سپلائروں کا مونگیر اور دھار کے غیر قانونی ہتھیار بنانے والے گروہوں سے سیدھا تعلق ہے۔ یہ لوگ خود ہتھیار جاکر لاتے ہیں جبکہ کئی بار انہیں کوریئر(اسلحہ لانے) والے بھی اسے لیکر آتے ہیں۔ پکڑے گئے ہتھیار سپلائروں نے انکشاف کیا ہے کہ گروہ جس طرح کے ہتھیاروں کی مانگ کرتے ہیں انہیں بیحد کم داموں پر دستیاب کرا دیا جاتا ہے۔ چونکانے والی بات تو یہ بھی ہے کہ بہار اور مدھیہ پردیش کے جنگلوں میں چل رہی فیکٹروں میں بننے والے ہتھیاروں کی سپلائی نکسلی اور پاکستانی آتنک وادیوں تک کو بھی ہوتی ہے۔ اس کا سب سے بڑا خلاصہ اس وقت سامنے آیاتھا جب کچھ وقت پہلے دہلی پولیس نے پاکستانی آتنکی تنظیم لشکر طیبہ کے ایک دہشت گرد کو گرفتار کیا تھا۔اس سے پوچھ گچھ پر پتہ چلا تھا کہ ان کو ہتھیار سرحد پار سے لانے میں کافی پریشانی ہوتی ہے۔ اب بھارت میں کچھ غیر قانونی فیکٹریوں سے ہی ان کو موٹی رقم دے کر ہتھیار مل جاتے ہیں۔ خیال رہے کہ علی پور کے بختاور پور میں واقع فارم ہاؤس میں غیر قانونی ہتھیاروں کا ذخیرہ برآمد ہوا تھا۔پکڑے گئے تین ملزمان سے پوچھ گچھ پر پتہ چلا تھا کہ غیر قانونی ہتھیاروں کی فیکٹری سنبھالنے والے پاکستانی آتنکی تنظیموں سے وابستہ ہیں۔ پولیس کے ذرائع بتاتے ہیں کہ اسی طرح سے ماؤ وادیوں اور نکسلیوں کو بھی بہار اور مدھیہ پردیش کے جنگلوں میں بننے والے ہتھیار سپلائی ہورہے ہیں۔ میں ڈبل بیرل کی شاٹ گنج اور سنگل بیرل کی گن بھی ہے۔ ماؤ وادی سب سے زیادہ انہی گن کا استعمال کرتے ہیں۔ کچھ عرصے پہلے اسپیشل سیل کے ذریعے دہلی کے کشمیری گیٹ پر واقع بس اڈے سے پکڑی گئی درجن بھر گنوں کے بعد یہ بھی خلاصہ ہوا کہ گن کا استعمال یوپی ۔ ہریانہ باہوبلی ہی نہیں بلکہ وہ لوگ بھی کرتے ہیں جن کو کمپنیوں میں سکیورٹی گارڈ کی نوکری کرنی ہوتی ہے۔ ایسے سکیورٹی گارڈ کے پاس نہ تو ہتھیاروں کا لائسنس ہوتا ہے اور نہ ہی گن ہوتی ہے، پچھلے پانچ برسوں میں ناجائز ہتھیاروں کی سپلائی سب سے زیداہ ہورہی ہے۔ پچھلے 7-8 برسوں میں بدمعاشوں کے ہتھیار بھی بدلے ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟