کرتارپور:رشتوں کو بہتر بنانے کا پل بن سکتا تھاپر.....

شری کرتارپور صاحب کوریڈور کے لئے دونوں دیشوں بھارت اور پاکستان نے بنیاد کھ دی ہے پیر کو پنجاب کے گروداسپور ضلع کے مان گاﺅں میں ہندوستان کے نائب صدر وینکیا نائیڈو اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ کیپٹن امریندر سنگھ نے اس کی بنیاد تو رکھی تو بدھ وار کو پاکستا نے اس کا سنگ بنیاد پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے رکھا اس کوریڈور کا سنگ بنیاد جس جذبے کے ساتھ رکھا گیا وہ خوش آئین ہے ۔چونکہ اگلے سال تک سکھ شردھالوں کے کرتارپور صاحب تک پہنچنے کا راستہ صاف ہو گیا ہے ۔امریکہ سے بے توجہی جھیل رہے پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان بھارت سے رشتے بہتر بنانے کے لئے اس طرح کے مواقع کچھ اسی طرح ہی پرجوش لگتے ہیں جس طرح اپنے عہد کے آغاز میں بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کے تھے ۔پاکستان بین الااقوامی برادری کے سامنے ہمیشہ اس طرح سے اپنے آپ کو پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے جیسے وہ اسلام آباد اور نئی دہلی کے درمیان رشتوں میں بنے تعطل کو توڑنا چاہتا ہے لیکن بھارت اس تعطل کو ختم کرنے میں روڑا اٹکاتا ہے اور چاہتا ہے کسی نہ کسی طرح کا تعطل بنا رہے سکھ شردھالوں کے لئے یہ تو ایک تاریخی موقع تھا لیکن اس موقع پر پاکستان کے وزیر اعظم کی جو تقریر تھی وہ کچھ معنوں میں مایوس کرنے والی ضرور تھی جہاں ایک ہاتھ سے عمران خان نے دوستی کا ہاتھ بڑھایا نو جوت سنگھ سدھو کی تعریفوںکے پل باندھے وہیں اس موقع پر اپنے حق میں ڈپلومیسی استعمال کرنے کے علاوہ دوہرے پن کا جس طرح سے ثبوت دیا اس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔پروگرام سے ایک دن پہلے ہی پاکستان کی جانب سے یہ پیغام دیا گیا کہ وہ سارک کانفرنس کےلئے بھارت کے وزیر اعظم کو مدعو کرئے گا ظاہر ہے اس پیغام کا کوئی مطلب نہیں تھا ۔کیونکہ ایک طرف تو سارک پروگرام ممبر ملکوں کی منظوری سے طے ہوتا ہے ،اور ابھی اس بارے میں کچھ طے نہیں ہو سکا ۔دوسرے بھارت کہہ چکا ہے اور وزیر خارجہ سشما سوراج نے سنجیدگی کے ساتھ پاکستان کو یاد بھی دلا دیا کہ دہشت گردی اور بات چیت ساتھ ساتھ ممکن نہیں ہے ۔کرتارپور کوریڈور کا سنگ بنیاد رکھنے کا پروگرام آپسی اتفاق رائے کی بنیاد پر طے ہوا ہے جس کی مانگ بھارت پچھلے 20سال سے کر رہا تھا ۔بے شک عمران خان کا سد بھاونا سندیش ہے لیکن کیا اسے بھارت پاک کے درمیان بات چیت شروع کرنے کی بنیاد مان لی جائے؟بے شک عمران خان کا یہ کہنا کہ دونوں دیش خود کفیل نیو کلیائی ملک ہیں اس لئے جنگ تو ہو نہیں سکتی جو ایسا سوچتا ہے وہ بے وقوف ہے ایسے میں صرف دوستی کا راستہ بچتا ہے انہوںنے یہ بھی کہا کہ بھارت سے مضبوط رشتوں کے لئے ان کی حکومت فوج و سیاسی پارٹیاں ایک ہی خیمے میں ہیں۔اگر فرانس جرمنی ایک ساتھ آسکتے ہیں تو پھر پاکستان ہندوستان بھی ایسا کیوں نہیں کر سکتے ؟انہوں نے کہا ہم نے ایک دوسرے کے لوگ مارے ہیں لیکن پھر بھی سب بھلا سکتے ہیں ۔انہوںنے یہ بھی کہا کہ ہمیشہ کہا جاتا تھا کہ پاکستان کی فوج دوستی نہیں ہونے دیے گی لیکن آج ہماری پارٹی ،وزیر اعظم اور فوج ایک ساتھ ہیں ۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بے دونوں ملکوں کے درمیان اختلاف کا سب سے بڑا مسئلہ صرف کشمیر ہے ۔پاکستان کے دوہرے کردار کو دکھاتا ہے ۔کرتارپور کوریڈور ہند پاک کے درمیان دوریوں کو کم کرنے کا بڑا ذریعہ بن سکتا تھا،لیکن دونوں طرف خدشات اتنے حاوی ہیں کہ یہ آسان نہیں ہے ۔بھارت مانتا ہے کہ پاکستان کی نیت اور دوہرے رخ رشتے بہتر بنانے کی راہ میں بڑا روڈا ہے اس موقع پر پاکستانی فوج کے سربراہ قمر باجوا کا خالستان کا انتہائی مطلوب گوپال چاولہ سے ملنا اور عمران خان کے ذریعہ کشمیر اشو کو اٹھانا پاکستان کے دوہرے رویئے سے جوڑ کر دیکھا جانا فطری ہے کشمیر کے تذکرے پر بھارت نے سخت ردعمل ظاہر کیا ہے ۔واقف کاروںکا کہنا ہے کہ کرتارپور سے دونوں دیشوںمیں بات چیت کی اچھی پہل ہو سکتی تھی لیکن پاکستان کا دوہرا کردار اور پالیسی شاید ایسا کرنے میں پھر رکاوٹ بنے گی خیر کرتارصاحب کوریڈور بننے کا خیر مقدم ہے۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟