کرتارپورکوریڈور کا فیصلہ قابل خیر مقدم ہے پر چوکسی بھی ضروری

یقینی طور پر گرو نانک جی کی585ویں جینتی پر کرتارپور پروجکٹ کا فیصلہ لائق خیر مقدم ہے قریب 7دہائی پہلے تقسیم نے سکھوں کے جن پوتر دھر م استھلوں کرتارپور صاحب کو شردھالوﺅں کی پہنچ سے دور کر دیا تھا وہاں تک اب کوریڈور تک پہنچانے کا اعلان ہی اپنے آپ میں بہت خوش آئین اور قابل خیر مقدم ہے ۔نہ صرف پچھلے 70سال ہی اس فیصلے کاانتظار کر رہے سکھ شردھالو اس فیصلے سے خوش ہیں بلکہ کچھ حد تک بھارت پاکستان کے ٹھنڈے پڑتے رشتوں میں بھی اس سے نئی گرماہٹ آسکتی ہے ۔کرتارپور صاحب پوتر استھلوں میں شمارکیا جاتا ہے یہ مقام ہندوستانی سرحد سے تقریبا چار کلو میٹر کی دوری پر ہے ۔اور اتنی ہی دوری کے چلتے ہندوستانی سکھوں کو دوربین سے اپنے اس پوتر گرودوارہ کرتارپور صاحب کے درشن دوربین سے ہی کر کے مطمئن ہو نا پڑتا تھا ۔سکھوں کے پہلے گرو کی زندگی میں کرتارپور کا فی اہمیت کا حامل رہا ہے ۔انہوں نے اپنی زندگی کے آخری 18سال یہیں گذارے تھے مشکل یہ ہے کہ کرتارپور پاکستان کے نرول ضلع میں پڑتا ہے کافی عرصہ سے یہ مانگ کی جا رہی تھی کہ سکھ تیرتھ یاتریوں کے لئے ایک کوریڈور بنایا جائے جس میں وہ بغیر کسی ویزا یا خاص اجازت کے درشن کے لئے وہاں جا سکیں ۔اس کوریڈور بننے کا مطلب ہوگا کہ اب سرحد کی کانٹے دار تار سکھ سنگت آڑے نہیں آنے دیں گے اور وہ دوربین سے درشن کرنے کے بجائے سیدھے وہاں کے گرو دوارے جا کر متھا ٹیک سکیں گے ۔بدھوار کو مرکزی کیبنٹ کے اس پروجکٹ کو ہر ی جھڈی دکھانے کے ٹھیک ایک دن پہلے پاکستان حکومت نے نہ صرف ہری جھنڈی دی تھی بلکہ یہ بھی اعلان کیا تھا کہ جلد ہی وزیر اعظم عمران خان اس پروجکٹ کا سنگ بنیاد کرنے کرتارپور جائیں گے ۔تازہ روپورٹ کے مطابق انہوں نے ایک تقریب میں اس پروجکٹ کا سنگ بنیاد رکھ دیا ہے ۔اس میں پاکستان کی پہل ضروری بھی تھی کیونکہ سارا کام اسی کے علاقہ میں ہونا ہے ۔بھارت کو تو صرف تیرتھ یاتریوں کے لئے راستہ کھولنا تھا ۔اس کے باﺅجود پاکستانی حکام نے ہندوستانی سفارتکاروں کو سکھ دھرم استھل پر جانے سے روکنے کی جو کوشش کی ہے وہ قابل مذمت ہے جبکہ پہلے وزارت داخلہ نے اس کی اجازت دے دی تھی اور وہ افسر اپنی ذمہ داری پوری کرنے گئے تھے ۔جمعرات کو ہندوستانی کیبنٹ کے فیصلے کے بعد طے ہوا تھا کہ پاکستان نے دوسری حرکت ننکانہ صاحب میں بھارت مخالف خالستان ہمائتی ناروں اور پوسٹروں کے ذریعہ سے کی ہے بد قسمتی یہ ہے کہ کرتارپور گلیارے کے ذریعہ سے ایک دوسرے کے قریب آنے لگے بھارت پاک کے درمیان اسی اشو پر تلخی پیدا ہونے لگی ہے ۔دراصل انتہا پسندی کو فروغ دینا اور اس کا سفارتی استعمال کرنا پاکستا ن کی فطرت میں ہے اور اس کا خمیازہ وہ خود بھگت رہاہے یہی وجہ ہے کہ کراچی میں چینی سفارتخانے پر بلوچستان کے انتہا پسندوںنے حملہ کیا اور دو پولس والوں کو مار گرایا پاکستان ایک طرف چین کے ساتھ ون بیلٹ ون روڈ پروجیکٹ اور اقتصادی گلیارے کی اسکیم پر کام کر رہا ہے تو دوسری طرف وسائل سے آراستہ اپنے سب سے بڑے صوبے بلوچستان کو دمن استحسال کا شکار بنائے ہوئے ہے ۔یہی وجہ ہے کہ وہاں کی جنتا بلوچستان لیبریشن آرمی اور آزادی کی مانگ کر رہی ہے ۔حالانکہ کرتارپور کوریڈور دونوں ملکوں کے رشتوں کو نیا باب دے سکتا ہے لیکن اس کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ اس کوریڈور کا استعمال سد بھاﺅ بڑھانے اور یہ بھارت کے لئے آتنکی کوریڈور نہ بن جائے۔اس کے لئے چوکسی ضروری ہوگی۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟