آوارہ کتوں کی بڑھتی تعداد کے مسئلے سے کیسے نمٹا جائے

آوارہ کتوں کا مسئلہ دن بدن بڑھ رہا ہے بیشک جانوروں کی زندگی کا خاتمہ کرناشاید صحیح نہ ہو لیکن جب یہ جانور آدمی کی جان کے لئے خطرہ بن جائیں تو کیا کیا جائے؟ عزت مآب سپریم کورٹ کے سامنے ایک معاملہ پچھلے دنوں آیا۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ جانور کے تئیں سختی اور انسانی زندگی کے درمیان توازن کو بنانا ہوگا۔ کتے کی جان انسانی زندگی سے زیادہ قیمتی نہیں ہے۔ انسان کے لئے خطرہ بن چکے آوارہ کتوں سے سختی سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔اس ضرورت کو کسی پرانے مقامی قانون کے بہانے ٹالا نہیں جاسکتا۔ جسٹس دیپک مشرا اور جسٹس شیو کیرتی سنگھ کی بنچ نے صاف کیا کہ خاص قسم کے آوارہ جانوروں کو ختم کرنے کی کارروائی جانوروں کے تئیں بے رحمی کی روک تھام قانون کے تحت بنے جانور پیدائش کنٹرول قواعد 201 کے مطابق ہی کی جانی چاہئے۔ بنچ نے کہا کہ زندگی قدرت کا انمول تحفہ ہے اور جانوروں کے تئیں سختی اور انسانی زندگی میں تال میل ہونا چاہئے۔ ججوں نے کہا فی الحال وہ اس معاملے پر مہاراشٹر ، کیرل کی میونسپل کارپوریشن قانون سے متعلق تقاضوں پر غور نہیں کررہے ہیں اور درکار قانون کے تحت 2001ء میں بنائے گئے قواعد کے مطابق ہی کارروائی کرنے کا حکم دیا جارہا ہے۔ عدالت نے دلیل کنندگان سے یہ بھی کہا کہ آوارہ کتوں کی بہبود کے لئے اٹھائے گئے قدموں سے اسے واقف کرایا جائے۔ قواعد کے تحت چنندہ قسم کے آوارہ کتوں کے لئے الگ سے باڑہ بنانے کی ضرورت ہے۔ عدالت اس معاملے میں مرکز اور ریاستی سرکاروں کے ذریعے بنائے گئے قوانین کو لیکر جانور بہبود بورڈ سمیت کئی انجمنوں کی عرضوں پر سماعت کررہی تھی۔ادھر دہلی ہائی کورٹ میں بھی کتوں کو لیکر ایک عرضی دائر کی گئی ہے۔ عرضی میں کہا گیا ہے کہ آوارہ کتوں کو انجکشن لگانے کے بعد اسی کمپلیکس میں چھوڑا جانا چاہئے جہاں وہ پہلے سے رہ رہے ہوں۔ چیف جسٹس روہنی کی رہنمائی والی بنچ کے سامنے دراصل سنگل بنچ کے اس حکم کو بھی چیلنج کیا گیا جس میں این ڈی ایم سی کو ہدایت دی گئی تھی کہ دہلی گولف کلب کمپلیکس سے ایک ماہ کے اندر کتوں کو ہٹا کر دوسری جگہ بھیجا جائے۔ اینیمل ویلفیئر بورڈ آف انڈیا نے بنچ کے سامنے اینیمل ویلفیئر برتھ کنٹرول (ڈاگ) رولز2001 پی سی ایکٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آوارہ کتوں کو کسی دوسری جگہ پر ٹیکہ لگانے کے بعد چھوڑا جاسکتا ہے۔ بنچ نے کہا کہ اگر ہائی کورٹ کمپلیکس میں 25 آوارہ کتے ہیں تو ان کو اسی قاعدے کے مطابق اس طرح سے نمٹا جائے گا۔ اس پر بورڈ کے وکیل کا جواب تھا کہ اس صورت سے ہائی کورٹ کمپلیکس میں معاملہ نمٹادیاگیا ہے۔ بورڈ نے بتایا کہ سپریم کورٹ میں صرف ان کتوں کو مارنے کی اجازت دی ہے جو کسی بیماری یا زخمی ہونے کے چلتے مرنے کے دہانے پر ہیں۔ آوارہ کتوں سے جنتا پریشان ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ تیزی سے بڑھتے ان آوارہ کتوں کے مسئلے سے کیسے نمٹا جائے؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟