کیااڈوانی کی مجوزہ یاترا ایک ماسٹر سٹروک ہوگا



Published On 15th September 2011
انل نریندر
بھارتیہ جنتا پارٹی کے سینئر لیڈر83 سالہ شری لال کرشن اڈوانی ایک مرتبہ پھر رتھ یاترا پر نکلیں گے۔ انہوں نے یوپی اے سرکار کے اقتدار میں رہنے کا جواز کھو دینے اور اس کا جن آدیش ختم ہوجانے کا دعوی کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ اس کرپٹ حکومت کے خلاف نومبر سے پہلے ملک بھر میں رتھ یاترا کریں گے۔ ووٹ کے بدلے نوٹ جس طرح سے اس حکومت نے بربادکیا ہے اس کا بھی جنتا میں وہ رتھ یاترا کے دوران پردہ فاش کریں گے۔ بھاجپا کور گروپ کی میٹنگ میں مجوزہ رتھ یاترا پر غور و خوض ہوا۔ یاترا کے دوران تقریباً 6 ہزار کلو میٹر کا سفر طے کیا جاسکتا ہے۔ اڈوانی جی کا نظریہ ہے کہ یاترا کا زور صاف ستھری سیاست اور بہتر انتظامیہ پر ہونا چاہئے جبکہ کچھ بھاجپا نیتاؤں کا نظریہ ہے کہ اسے کرپشن مخالف یاترا ہونا چاہئے کیونکہ پورے دیش میں بدعنوانی کا اشو مرکز بنا ہوا ہے۔پنجاب، اتراکھنڈ، گوا اور اترپردیش جیسی ریاستوں کے کچھ لیڈر چاہتے ہیں کہ یاترا ان ریاستوں سے ہوکر ضرور گذرے کیونکہ ان ریاستوں میں اگلے سال چناؤ ہونے والے ہیں۔ وہیں کچھ لیڈر اس نظریئے سے متفق نہیں نظر آتے۔
اڈوانی جی کی اس مجوزہ یاترا کی حمایت اور تنقید دونوں ہی ہو رہی ہیں۔ پہلے تنقید کی بات کرتے ہیں۔ انا ہزارے اور ان کی ٹیم محسوس کرتی ہے کہ یہ یاترا ان کی تحریک کی اہمیت کم کرنے کے لئے کی جارہی ہے۔ انا نے خود یاترا کو دکھاوا قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ تب تک بھاجپا کی حمایت نہیں کریں گے جب تک وہ پارلیمنٹ میں جن لوکپال بل کی حمایت نہیں کرتی۔ اس کی ریاستی حکومتیں لوکپال کی تقرری کا قانون نہیں بناتیں۔ انا نے ٹی وی چینلوں سے کہا کہ اگر کرپشن کے اشو پر اڈوانی سنجیدہ ہیں تو یاترا کرنے کے بجائے انہیں بھاجپا حکمراں سبھی ریاستوں میں لوک آیکت کی تقرری کے لئے قانون بنانے کو کہنا چاہئے۔ گذشتہ دنوں رالے گن سدھی میں انا کی ٹیم کی ایک اہم میٹنگ ہوئی۔ اس میٹنگ میں میدھا پاٹیکر نے جم کر اڈوانی کی رتھ یاترا کی مخالفت کی ہے۔پاٹیکر نے صاف کہا کہ اڈوانی کی رتھ یاتراکو کسی بھی حالت میں انا ہزارے کی حمایت نہیں ملنی چاہئے۔میدھا پاٹیکر نے آگاہ کیا کہ یہ ایک سیاسی یاترا ہے، جس کا مقصد سیاسی ہے۔ سماجی بھلائی یا کرپشن کو دور کرنا نہیں ہے۔ جہاں تک کانگریس پارٹی کے رد عمل کا سوال ہے وہ اس سے ناخوش ہے۔ ایک نیتا نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ یہ اڈوانی کا ماسٹر سٹروک ہے۔ انا ہزارے کی تحریک کے ٹھیک بعد مرد آہن کہے جانے والے بھاجپا کے سینئر لیڈر لال کرشن اڈوانی کی رتھ یاترا، عدالت عظمیٰ کے ذریعے نریندر مودی کو دی گئی راحت اور وسط مدتی چناؤ کی افواہوں نے کانگریس کے کان کھڑے کردئے ہیں۔ کرپشن کے اشو پر سرکار دباؤ میں ہے۔ پہلے گاندھی وادی انا ہزارے اور اس کے بعد بھاجپا نیتا ایل کے اڈوانی نے کرپشن کے مسئلے پر ایک رتھ یاترا کی بات کہہ کر حکومت اور کانگریس تنظیم دونوں کے لئے مشکلیں بڑھا دی ہیں۔ کانگریس کو اصلی فکر آنے والے مہینوں میں پانچ ریاستوں کے اسمبلی چناؤ کی ہے۔ ان میں سب سے اہم اترپردیش ریاست ہے۔ پنجاب اور اتراکھنڈ میں بھی کانگریس اس مرتبہ سرکار کی امیدیں لگائے ہوئے ہے۔ کانگریس کو بڑی پریشانی یہ ہے کہ انا کی تحریک سے جنتا میں یہ پیغام گیا ہے کہ سرکار اور تنظیم ان کو لیکر سنجیدہ نہیں ہے اور یہ پارٹی کے ماتھے پرشکن ڈالنے کے لئے کافی ہے۔ پارٹی کو یہ فکر بھی ستا رہی ہے کہیں انا کی بوئی فصل کو کاٹنے کیلئے اڈوانی نے جو ماسٹر سٹروک کھیلا ہے وہ کامیاب نہ ہوجائے؟ حکومت کے لئے اور کانگریس کے لئے پریشانی میں ڈالنے والے اڈوانی اکیلے نہیں ہے۔ ادھرانا ہزارے بھی گاؤں گاؤں گھومنے کی اسکیم بنا رہے ہیں۔ یوگ گورو بابا رام دیو بھی حکومت سے خفا بیٹھے ہیں اور نئے سرے سے یاترا کرنے جارہے ہیں۔ تینوں کی یاترائیں کرپشن کے اشو پر ہیں، ایسے میں کرپشن کا اشو نہ صرف اسمبلی انتخابات تک زندہ رہے گا بلکہ اگر ان انتخابات میں کانگریس ہار جاتی ہے تو 2014ء میں ہونے والے عام چناؤپر بھی اس کا اثر پڑ سکتا ہے۔ اڈوانی جی بھی یہ ہی چاہتے ہیں سرکار اور پارٹی دونوں پر دباؤ بنا رہے ہیں۔ اڈوانی جی کی اس رتھ یاترا سے بھاجپا کی دوسری صف کے نیتا اندر خانے خوش نہیں ہیں انہیں لگتا ہے اگر2014 ء میں بھاجپا لیڈر شپ والے این ڈی اے کو اقتدار مل جاتا ہے تو ان کا وزیراعظم بننے کا خواب پورا نہیں ہوگا اور اڈوانی بھاجپا کے نمبر ون پسندیدہ شخص ہوں گے جبکہ بھاجپا ورکر اس یاترا سے خوش ہیں اور گرمجوشی سے اس کا استقبال کرے گا۔ یاترا کے دوران ورکر سرگرم ہوجائے گا جو اڈوانی کا ایک مقصد بھی ہے لیکن پارٹی کے اندر رام جیٹھ ملانی جیسے لیڈر بھی موجود ہیں جو یاترا شروع ہونے سے پہلے ہی اس کی ہوا نکالنے میں لگے ہوئے ہیں۔ تہاڑ جیل میں بند امر سنگھ کی پیروی کررہے رام جیٹھ ملانی نے پیر کے روز تیس ہزاری عدالت میں کہا کیونکہ یہ اسٹنگ آپریشن بھاجپا نے کرایا تھا اس لئے ممبران کو دئے گئے پیسے کا انتظام بھی اسی نے کیا ہوگا۔جیٹھ ملانی پہلے بھی بھاجپا کے لئے اس طرح کی دقتیں پیدا کرتے رہے ہیں۔ ٹو جی اسپیکٹرم معاملے میں ایک طرف بھاجپا یوپی حکومت کے خلاف مورچہ کھولے ہوئے ہے تو دوسری طرف جیٹھ ملانی تہاڑ جیل میں بندڈی ایم کے کی راجیہ سبھا ممبر کنی موجھی کی پیروی بھی کررہے تھے۔
ایک طرف تو اڈوانی اس مسئلے کو لیکر سڑکوں پر اترنے کا اعلان کرتے ہیں تو دوسری طرف انہیں کی پارٹی کا ممبر یہ الزام لگا تا ہے کہ ووٹ کے بدلے نوٹ معاملے میں پیسہ بھاجپا نے ہی دیا ہوگا۔ جیٹھ ملانی کی یہ دلیلیں اڈوانی کی یاترا کی دھار کو کمزور کرسکتی ہیں کیونکہ نوٹ کے بدلے ووٹ معاملے میں بھاجپا شروع سے ہی کانگریس یوپی اے سرکار کو کٹہرے میں کھڑا کرتی رہی ہے۔ تہاڑ جیل میں بند اپنے دو سابق ممبران کو بھاجپا ’’وسل بلوور‘‘ بتاتی رہی ہے اور اڈوانی اس معاملے میں کہہ چکے ہیں کہ وہ جیل جانے کو تیار ہیں۔ البتہ مجوزہ رتھ یاترا کا مرکزی نکتہ تو رام مندر ہے اور نہ ہی ہندوتو بلکہ بدانتظامی اور صاف ستھری سیاست کے اشو کو لیکر ہے اور یہ اشو سبھی طبقوں ،مذاہب ،فرقوں کو پسند آئے گا۔ آخر اس یاترا کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟ اس کی دو وجوہات نظر آتی ہیں ایک کے بعد ایک گھوٹالوں نے یوپی اے حکومت کو دفاع میں لاکر کھڑا کردیا ہے۔ پھر انا کی تحریک نے اسے گھر گھر کا موضوع بنا دیا ہے۔ سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی ہونے کے ناطے بھاجپا کو لگتا ہے کہ اس ماحول کا سب سے زیادہ فائدہ اسی کو مل سکتا ہے۔ دوسرے ووٹ کے بدلے نوٹ کانڈ میں دہلی پولیس کی کارروائی نے بھاجپا کی بے چینی بڑھا دی ہے۔ اس کے دو سابق ممبران کو عدالت نے تہاڑ بھیج دیا ہے۔ پھر عدالت نے اس معاملے میں اڈوانی کے قریبی رہے سدھیندر کلکرنی کو نوٹس دیا ہوا ہے اور دہلی پولیس نے بھاجپا کے ایک موجودہ ایم پی کے خلاف کارروائی کے لئے لوک سبھا اسپیکر سے اجازت مانگی ہے جبکہ بھاجپا کا دعوی ہے کہ ان کے جن لوگوں کو ملزم بنایا گیا ہے وہ اصل میں تو خریدوفروخت کے ذریعے اکثریت حاصل کرنے کیلئے کانگریس کی سازش کو بے نقاب کرنے میں جٹے ہوئے تھے۔
بھاجپا لیڈرشپ کو یہ محسوس ہوا ہوگا کہ اگر پارٹی اس معاملے میں چپ بیٹھ گئی تو اسے کافی نقصان اٹھانا پڑسکتا ہے۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اب اپنی سیاسی زندگی کے غروب ہونے کے دہانے پر کھڑے انہیں سینئر عہدے پر پہنچنے کیلئے ایک موقعہ ضرور نظر آرہا ہے۔ اس کے لئے انہیں اپنی پارٹی کو دوبارہ سے زندہ کرنے اور اس میں اصلاح کرنے کی کوشش کرنی ہوگی۔ اڈوانی جی کے لئے سب سے بڑی چنوتی شاید یہ رہے گی کہ وہ بھارت کی جنتا میں یہ بھروسہ پیدا کریں کہ واقعی وہ کرپشن کے خلاف ہے اور وہ پوری ایمانداری سے کرپشن کو دور کرنے کیلئے حمایتی ہے۔ بیشک کچھ داغی لیڈروں کو حال ہی میں ہٹایا گیا ہے لیکن ابھی’’ تھیلی‘‘ لینے والے نیتا پارٹی میں موجود ہیں۔ دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ اڈوانی جیسی صاف ستھری ساکھ والے نیتا بھاجپا میں ضرور ہیں لیکن داغی بھی موجود ہیں۔ اڈوانی جی کو سب سے زیادہ خطرہ اندر سے ہے باہر سے نہیں۔
Amar Singh, Anil Narendra, Cash for Vote Scam, Corruption, Daily Pratap, L K Advani, Rath Yatra, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟