جہیز اذیت اور قانون

ڈھائی مہینے پہلے سپریم کورٹ کے دو ججوں کی بنچ نے جو فیصلہ دیا تھا کہ جہیز اذیت معاملہ میں فوری گرفتاری نہیں ہوگی۔ اس فیصلہ پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی رہنمائی والی بنچ نے دوبارہ غور کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ عدالت کا کہنا ہے جہیز اذیت معاملہ میں دئے گئے فیصلے میں جو بچاؤ کیا گیا ہے اس سے وہ متفق نہیں ہیں۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس دیپک مشرا کی سربراہی والی بنچ نے کہا کہ اس معاملہ میں دو ججوں کی بنچ نے 27 جولائی کو جو حکم پاس کیا تھا ،جس میں فوری گرفتاری پر روک لگانے سے متعلق جو گائڈ لائنس بنائی ہیں اس سے وہ متفق نہیں ہیں، ہم قانون نہیں بنا سکتے بلکہ اس کی تشریح کر سکتے ہیں، عدالت نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ 498A کے دائرہ کو ہلکا کرنا خاتون کو اس قانون کے تحت ملے اختیار کے خلاف جاتا ہے۔ بتادیں 27 جولائی کو سپریم کورٹ کے جسٹس اے کے گوئل اور جسٹس یو یو للت کی بنچ نے راجیش شرما بنام اسٹیٹ آف یوپی کے کیس میں گائڈ لائنس جاری کی تھیں اور اس کے تحت جہیز اذیت کے کیس میں گرفتاری سے بچاؤ کیا گیا تھا۔ کورٹ نے کہا تھا کہ سپریم کورٹ نے پہلے انریش کمار بنام بہاراسٹیٹ کے معاملہ میں ریمارکس دئے تھے کہ بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے سبب گرفتاری نہ ہو۔ یعنی گرفتاری کے لئے تھوڑا سا بچاؤ تھا۔ لا کمیشن نے بھی کہا تھا کہ معاملہ کو سمجھوتہ وادی بنایا جائے۔ بے قصور لوگوں کے انسانی حقوق کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ان چاہی گرفتاری اور غیر سنجیدہ تفتیش کے لئے سیف گارڈ کی ضرورت بتائی گئی کیونکہ یہ مسائل بدستور جاری ہیں۔ جہیز کیس میں پہلے بھی تاریخی فیصلے ہوئے ہیں۔2 جولائی 2014 ء کو سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ 7 سال تک کی سزا کی تقاضوں والے معاملے میں پولیس صرف کیس درج ہونے کی بنا پرگرفتاری نہیں کرسکتی بلکہ اسے گرفتاری کے لئے درکار اسباب بتانے ہوں گے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ ایک طرف جہیز ٹارچر کو لیکر اندھا دھند گرفتاریاں ہورہی ہیں دوسری طرف اس سے جہیزی قتل روکنے کا نام نہیں لے رہے ہیں۔ پورے کے پورے خاندان کے افراد اندر کئے جارہے ہیں اور ان کی ضمانت بھی آسانی سے نہیں ہوتی۔ پولیس کے ہاتھوں ایک ایسا ہتھیار آگیا ہے جس کا وہ دبا کر بیجا استعمال کررہی ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ اگر جہیز ٹارچر کی کوئی شکایت عورت کرتی ہے تب اس کی باریکی سے چھان بین ہونی چاہئے۔ صرف الزام لگانا ہی کافی نہیں ہے۔ کچھ عورتیں اس کو بلیک میل کا ہتھیار بنا لیتی ہیں۔ دوسری طرف دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ تمام سختی کے باوجود جہیز ٹارچر ،جہیز قتلوں پر لگام ہیں لگ پارہی ہے لیکن صرف قانون سے ہی مسئلہ کا حل ممکن نہیں ہے جب تک ہمارا سماج اس بارے میں اپنا نظریہ نہیں بدلتا یہ مسئلہ ختم ہونے والا نہیں ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟