وہ لڑائی جب چین پر بھارت بھاری پڑا!

جب ڈوکلام میں چین اور بھارت کی فوجیں آمنے سامنے تھیں تو چینی میڈیا بار بار بھارت کو یاد دلاتا تھا کہ 1962 میں چین کے سامنے بھارتیہ فوجیوں کی کیا گت ہوئی تھی۔ چین کے سرکاری میڈیا نے کبھی بھی پانچ سال بعد 1967 میں ناتھولا میں ہوئے اس واقعہ کا ذکر نہیں کیا جس میں اسے بھارت نے دھول چٹائی تھی۔ 1962 کی لڑائی کے بعد بھارت اور چین نے ایک دوسرے کے یہاں سے اپنے سفیر واپس بلا لئے تھے۔ دونوں راجدھانیوں میں ایک چھوٹا مشن ہی کام کررہا تھا۔ اچانک اپنی عادت سے مجبور چین نے الزام لگایا کہ بھارتیہ مشن میں کام کررہے دو ملازم بھارت کے لئے جاسوسی کررہے ہیں۔ انہوں نے ان دونوں کو فوراً اپنے یہاں سے نکال دیا۔ چین یہیں پر نہیں رکا۔ وہاں کی پولیس اور سیکورٹی فورس نے بھارت کے سفارتخانے کو چاروں طرف سے گھیر لیا اور اس کے اندر اور باہر جانے والے لوگوں پر روک لگادی۔ بھارت نے بھی چین کے ساتھ وہی سلوک کیا۔ یہ کارروائی 3 جولائی 1967 کو شروع ہوئی اور اگست میں جاکر دونوں ملک ایک دوسرے کے سفارتخانوں کی گھیرابندی توڑنے کے لئے راضی ہوئے۔انہی دنوں چین نے شکایت کی کہ بھارتیہ فوجی ان کی بھیڑوں کے ریوڑ کو ہانک کر بھارت میں لے گئے ہیں۔ اس وقت حزب اختلاف کی ایک پارٹی بھارتیہ جن سنگھ نے اس کی عجیب و غریب ڈھنگ سے مخالفت کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت پارٹی کے ممبر پارلیمنٹ اٹل بہاری واجپئی جو بعد میں بھارت کے وزیر اعظم بنے ، چین کے نئی دہلی میں شانتی پتھ سفارتخانے میں بھیڑوں کے ایک جھنڈ کو لیکر گھس گئے۔ اس سے پہلے 1965 میں بھارت۔ پاکستان جنگ میں جب بھارت پاکستان پر بھاری پڑنے لگا تو پاکستان کے صدر ایوب خان خفیہ طریقے سے چین گئے اور انہوں نے چین سے گزارش کی ہے پاکستان پر دباؤ ہٹانے کیلئے وہ بھارت پر فوجی دباؤ بنائے۔ لیڈر شپ ان دی انڈین آرمی کے مصنف میجر جنرل وی کے سنگھ بتاتے ہیں : اتفاق سے میں ان دنوں سکم میں ہی تعینات تھا۔ چین نے پاکستان کی مدد کرنے کے لئے بھارت کو ایک طرح سے الٹی میٹم دیا کہ وہ سکم کی سرحد ناتھولہ اور جیلے پلا کی سرحدی چوکیاں خالی کردے۔ اس وقت ہماری اہم سیکورٹی لائن وہیں پر تھی اور ہیڈ کوارٹر کے چیف جنرل نے جنرل سنگت سنگھ کوحکم بھی دے دیا کہ ان چوکیوں کو خالی کردیجئے لیکن جنرل سنگت نے کہا کہ انہیں خالی کرنا بہت بڑی بیوقوفی ہوگی۔ ناتھولہ اونچائی پر ہے اور وہاں سے چینی علاقے میں جو کچھ ہورہا ہے اس پر نظر رکھی جاسکتی ہے ۔ اگر ہم اسے خالی کردیں گے تو چینی آگے بڑھ جائیں گے اور وہاں سے سکم میں ہورہی ہر سرگرمی کو صاف صاف دیکھ پائیں گے۔ ناتھولہ کو خالی کرنے کے بارے میں فیصلہ لینے کا اختیار میرا ہوگا۔ میں ایسا نہیں کرنے جا رہا۔ دوسری طرف 27 ماؤنٹین ڈویژن نے جس کے دائرہ اختیار جیلپ آتا تھا وہ چوکی خالی کردی۔ چین کے فوجیوں نے فوراً آگے بڑھ کر اس پر قبضہ کرلیا۔ یہ چوکی آج تک چین کے قبضے میں ہے۔ اس کے بعد چینیوں نے 17 آسام رائفل کی ایک بٹالین پر گھات لگا کر حملہ کردیا جس میں اس کے دو فوجی مارے گئے۔ سنگت سنگھ اس پر بہت ناراض ہوئے اور انہوں نے اسی وقت طے کرلیا کہ موقعہ آنے پر اس کا بدلہ لیں گے۔ اس وقت ناتھولہ میں تعینات میجر جنرل تھیرو تھپلیال لکھتے ہیں : ناتھولہ میں دونوں فوجوں کے درمیان سرحد پر گشت کے ساتھ دھکا مکی و دونوں ملکوں کے فوجیوں کے بیچ تو تو میں میں ہونے لگی۔ 6 دسمبر 1967 کو بھارتیہ فوجیوں نے چین کے پولیٹیکل کمشنر کو دھکا دے کر 1962 کا خوف نکال دیا۔ بھارت کی سخت مخالفت کا اتنا اثر ہوا کہ چین نے بھارت کو یہاں تک دھمکی دی کہ وہ اس کے خلاف اپنی ہوائی فوج کا استعمال کرے گا لیکن بھارت پر اس دھمکی کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ اتنا ہی نہیں 15 دنوں بعد اکتوبر 1967 کو سکم میں ہی ایک اور جگہ بھارت اور چین کے فوجیوں کے درمیان ایک اور بھڑنت ہوئی اس میں بھی بھارتیہ فوجیوں نے چین کا زبردست مقابلہ کیا اور ان کے فوجیوں کو تین کلو میٹراندر بیرکس تک دھکیل دیا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ جب15 ستمبر 1967 کو لڑائی رکی تو مارے گئے بھارتیہ فوجیوں کی لاشوں کو حاصل کرنے کیلئے سرحد پر اس وقت پوربی کمان کے چیف فوجی افسر جنرل جگجیت سنگھ اروڑا اور جنرل سنگت سنگھ موجود تھے۔ انڈین ایکسپریس کے ایسوسی ایٹیڈ ایڈیٹر سوشانت سنگھ بتاتے ہیں کہ 1962 کی لڑائی میں چین کے 740 فوجی مارے گئے تھے۔ یہ لڑائی قریب ایک مہینے چلی تھی اور اس کا علاقہ لداخ سے لیکر اروناچل پردیش تک پھیلا ہوا تھا اگر ہم مانیں کہ 1967 میں بھارت۔ چین جنگ میں چینیوں کو300 فوجیوں سے ہاتھ دھونا پڑا یہ بہت بڑی تعداد تھی۔ اس لڑائی کے بعد کافی حد تک 1962 کا خوف نکل گیا۔ بھارتیہ فوجیوں کو پہلی بار لگا کہ چینی بھی ہماری طرح ہیں اور وہ پٹ سکتے ہیں اور ہار سکتے ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟