جسٹس کاٹجو نے عدلیہ کی ساکھ اور اعتماد پرسوال اٹھایا !

اکثر متنازعہ بیان دینے کے لئے سابق جسٹس اور پریس کونسل آف انڈیا کے چیئرمین مارکنڈے کاٹجو سرخیوں میں رہتے ہیں لیکن اس بار تو انہوں نے ایسا بیان دے ڈالا جس سے ہماری عدلیہ کے کریکٹر پر ہی سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔عدالتی فیصلوں کو میڈیا کی سرخی بنتے تو ہم نے اکثردیکھا ہے لیکن ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ جب عدلیہ خود کسی اسباب سے دیش اور دنیا میں بحث کا اشو بن جائے۔ مارکنڈے کاٹجو نے جس سنسنی خیز انداز میں کرپشن کے الزامات میں ملوث ایک سینئر جج کے بارے میں سیاسی اسباب سے سروس میں توسیع دئے جانے کے معاملے کا جو سنسنی خیز انکشاف کیا ہے، اس سے بھونچال آنا فطری ہی ہے۔ کاٹجو نے کہا کہ مدراس ہائی کورٹ کے ایک ایڈیشنل جج کو کرپشن کے الزامات کے باوجود نہ صرف برقرار رکھا گیا بلکہ اس کی ملازمت میں بھی توسیع کردی گئی۔ یہ ہی نہیں انہیں بعد میں ایک دوسری ہائی کورٹ میں مستقل جج بنا دیا گیا۔یہ فائدہ انہیں اس لئے ملا کیونکہ انہیں تاملناڈو کے ان سینئر سیاستدانوں کی ہمدردی حاصل تھی جن کی حمایت کے بغیر یوپی اے کی پہلی سرکار چل نہیں سکتی تھی۔ معاملے کی گونج پارلیمنٹ میں بھی سنائی پڑی اور تمام پارٹیاں اپنے اپنے نظریئے کے ساتھ اس معاملے کا محاسبہ کرنے میں لگی ہوئی ہیں۔ سوال اٹھائے جارہے ہیں کہ آخر 10 سال بعد کاٹجو کا ضمیر اچانک کیسے جاگ گیا؟لیکن اس سوال کے جواب میں کاٹجو خود سوال داغتے ہیں کہ کیا سچائی بھی کسی وقت اور میعاد میں باندھی جاسکتی ہے؟ اس سنسنی خیز انکشاف کا وقت چننے کے پیچھے بیشک کاٹجو کی اپنی مصلحت ہوں گی لیکن اس سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ انہوں نے ایک حساس ترین اور سنگین معاملے کو دیش کے سامنے اچھال دیا ہے۔ ان کے ارادے اور انکشاف کے موقعے کولیکر بیشک سوال اٹھائے جائیں اور یہ سوال کچھ گنے چنے لوگوں کے لئے اہم ہوسکتے ہیں لیکن بات اس اشو کی ہونی چاہئے کہ عدلیہ میں کرپشن کی جڑیں کیوں گہری ہورہی ہیں؟ عدلیہ جمہوریت کا نہ صرف تیسرا ستون ہے بلکہ عام آدمی کی نظر میں یہ سب سے قابل بھروسہ بنیاد بھی ہے جو اس کے لئے انصاف کرتی ہے۔ ایسے میں عدلیہ کے سسٹم پر بھروسہ اور جمہوریت کا سب سے بڑا کوچ ہے یہ کوچ با اثر بنا رہے اس کے لئے ضروری ہے کہ کرپشن یا سیاسی مداخلت سے اسے پوری طرح پاک رکھا جائے۔ کاٹجو نے متعلقہ ایڈیشنل جج پر مہربانی کے لئے تین سابق ججوں کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے جنہوں نے باری باری سے سپریم کورٹ کی رہنمائی کی۔ غور طلب ہے کہ ہائی کورٹ کو دو ججوں کی تقرری بڑی عدالت کے تین سینئر ججوں کو کالیجیم طے کرتا ہے اور اس میں پانچ سینئر جج شامل ہوتے ہیں۔ کاٹجو کے مطابق جب وہ مدراس ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تھے تو انہیں وہاں کے ایک ایڈیشنل جج کے بارے میں کرپشن کی شکایتیں ملی تھیں اور ان کی اپیل پر چیف جسٹس نے انٹیلی جنس بیورو سے اس کی جانچ کرائی اور الزامات کو صحیح پایا گیا۔ کاٹجو کا دعوی ہے آئی بی کی اس رپورٹ کے بارے میں سپریم کورٹ کے ان تین چیف جسٹس کو پتہ تھا جن کے نام انہوں نے لئے ہیں۔ پھر بھی مدراس ہائی کورٹ سے وابستہ ایڈیشنل جج کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے انہیں ملازمت میں توسیع اور ترقی کا فائدہ پہنچادیا گیا۔ یہ سب اس لئے ہوا کیونکہ یوپی اے سرکار کو حمایت دے رہی تاملناڈو کی پارٹی نے دھمکی دی تھی کہ اگر اس جج کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی تو یوپی اے سرکار گر سکتی ہے۔ صاف ہے کہ تاملناڈو کی یہ پارٹی ڈی ایم کے تھی جس کے ایک لیڈر کو اس جج نے ضمانت دی تھی۔ اس معاملے میں ڈی ایم کے کے دامن پر داغ لگا ہے ۔ تین سابق ججوں کے ساتھ ساتھ کانگریس بھی کٹہرے میں کھڑی نظر آتی ہے۔ کاٹجو کا انکشاف یہ بھی بتاتا ہے کہ ڈی ایم کے کو خوش کرنے اور اس طرح اپنی سرکار بچانے کے چکر میں کانگریس کولیجیم پر دباؤڈالنے کی حد تک چلی گئی۔ کیا اس وقت وزیر اعظم منموہن سنگھ اس کے انجان تھے؟ جسٹس کاٹجو نے نہ صرف جانی پہچانی بات کو عام کردیا۔ آزادی کے 67 سال گزرجانے کے بعد اگر ہم ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے ججوں کی تقرری کی کارروائی کو شفاف بنانے کے بارے میں غور کرنے کو تیار نہیں ہیں تو ہمارے جمہوری سسٹم کیلئے اس سے زیادہ تشویشناک بات اور کیا ہوسکتی ہے؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟