دھرم کا سیاست میں استعمال بند ہو!

نفرتی تقریر کو معاملہ پچھلے کئی دنوں سے سرخیوں میں ہے ۔آخر کار عزت مآب سپریم کورٹ نے کہا کہ جس لمحے دھرم اور سیاست کو الگ کر دیا جائے گا اور سیاستداں سیاست میں مذہب کا استعمال کرنا بند کردیںگے اسی لمحے نفرتی بھاشن بند ہو جائیںگے ۔ یہ رائے زنی آج کے پس منظر میں بہت اہم ہے ،آنکھیں کھولنے والی ہے ۔ جب سیاست اور مذہب الگ ہو جائیںگے اور نیتا دھرم کے ذریعے سیاست میں اونچے مقام حاصل کرنے کا خواب چھوڑ دیںگے تبھی ہیٹ اسپیچ کو ختم کیا جا سکتا ہے ۔ہر فریق کے خرافاتی عناصر کی طرف سے ایسی تقریر کی جا رہی ہیں۔ لوگوں کو بھی خود کو تحمل برتنا چاہئے ۔ جسٹس کے ایف جوزیف اور جسٹس بی بی رتنا کی بنچ نے نفرتی تقریروں پر سنگین اعتراض جتاتے ہوئے کہا کہ آخر عدالتیں کتنے لوگوں کے خلاف توہین عدالت کے معاملے شروع کرسکتی ہیں ۔ دیش کے ہی لوگ دوسرے لوگوں یا فرقوں کے خلاف غلط نہ بولنے کا عہد کیوں نہیں لیتے ؟ بنچ نے کہا کہ ہر ایک دن خرافاتی عناصر ٹی وی اور پبلک مقامات سمیت دیگر جگہوں پر لوگوں کے تئیں نفرت پھیلانے والی تقریریں کر رہے ہیں۔ اس میں ہر طرف کے لوگ ہیں ۔ بیان بازی کے بعد عدالت پہنچتے ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف ہتک عزت کاروائی کی مانگ کرتے ہیں۔ بڑی عدالت شاہین عبدللہ کی عرضی پر سماعت کر رہی تھی میں کہا گیا تھا کہ پچھلے چار مہینے میں 50سے زیادہ نفرتی تقریر دینے کے معاملے سامنے آئے ہیں ۔ بنچ نے مہا راشٹر سرکار کو جواب دینے کیلئے نوٹس جاری کرنے کے ساتھ ہی معاملے کی اگلی سماعت 28اپریل تک ملتوی کر دی ہے۔نفرتی تقریر کو ناسور بتاتے ہوئے کورٹ نے کہا کہ اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش میں اوچھی ذہنیت کے لوگ ایسی ایسی تقریریں کرتے ہیں جس سے حالات میں کشیدگی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔کورٹ کی رائے زنیاں نفرتی تقریر کرنے والوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے میں ناکام رہنے کو لیکر ریاستوں کے خلاف توہین عدالت عرضی پر سماعت کے دوران ناکامی سامنے آئی ہے ۔جسٹس ناگ رتنا نے کہا کہ ہم کہاں جا رہے ہیں؟ ہمارے پاس سابق وزیر اعظم جواہر لال نہراور اٹل بہاری واجپائی جیسے مقرر ہوتے تھے ۔ لوگ دور دراز کے علاقوں سے، دیہاتوں سے، نکر چوراہوں سے انہیں سننے کیلئے آتے تھے۔ جب جن کے پاس کوئی جانکاری نہیں ہے وہ اس طرح کی نفرتی تقریریں کر رہے ہیں۔ یہ کام پوری طرح سے سرکاروں کا ہے ۔ ایسے واقعات پر نظر رکھیں۔ اور ضروری کاروائی کریں ۔ اسی فرض کو نبھاتے ہوئے بنچ نے پوچھا کہ ایف آئی آر درج کرنے کے بعد کیا کاروائی کی گئیں۔ پچھلے سال اکتوبر میں سپریم کورٹ نے زور دیکر کہا تھا کہ آئین بھارت کو سیکولر فریق ملک کی شکل میں دیکھتا ہے ۔اور دہلی یوپی ،اتراکھنڈ سرکاروں کو انتظار کئے بغیر قصورواروں کے خلاف مقدمہ درج کرنے چاہیے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟